حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ مدبرینِ امت اور ان دس صحابہؓ میں سے ہیں، جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت ملی۔ ہجرت کے بعد آپؓ کا سلسلۂ مواخات ایک انصاری صحابی حضرت سعد بن ربیعؓ کے ساتھ بنا۔ حضرت سعدؓ نے پورے جذبۂ اَخوت کے ساتھ اپنے مہاجر بھائی کو کہا کہ: ’’میںاپنی کُل دولت کو اپنے اور تمھارے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر لوںگا۔ میری دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے جس سے تم نکاح کرنا چاہو، میں طلاق دینے کے لیے تیار ہوں۔ تم مقررہ مدت گزرنے کے بعد اس سے شادی کر لینا۔‘‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اسی جذبے کے ساتھ حضرت سعدؓ کو جواب دیا کہ: ’’اللہ تمھارے مال اور تمھاری بیویوں کو تمھارے لیے باعثِ برکت بنائے۔ مجھے بازار کا راستہ دکھا دو۔ ‘‘
بلاشبہ اس بے مثال اخوت اور باہمی خلوص کی تصویر دیکھ کر انسان حیرت سے انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے، جس کی مثال تاریخِ انسانی میں دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے شریفانہ اور غیرت مندانہ رویے اور اپنے مواخاتی بھائی سے فائدہ نہ اٹھانے کا جذبہ جس قدر قابلِ تحسین ہے، اسی طرح حضرت ابن ربیعؓ کی فیاضی اور ایثار قابلِ قدر ہے۔ حضرت ابن عوفؓ ایک لائق اور تجربہ کار تاجر تھے۔ اپنی نئی اجتماعی زندگی میں اپنا مقام خود پیدا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپؓ کی مالی حالت اس قدر مستحکم ہوگئی کہ انھوں نے نہ صرف شادی کرلی، بلکہ سونے کی کچھ مقدار بھی اپنی اہلیہ کو مہر کے طور پر ادا کی۔ حضرت عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ ایک روز حضوؐر نے میرے چہرے پر زرد رنگ کی خوشبو کے آثار دیکھے تو پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ تو میں نے بتلایا کہ انصار کی ایک خاتون سے شادی کرلی۔ رسول اللہؐ نے برکت کی دعا دی اور فرمایا: ’’ولیمہ کرو! اگرچہ ایک ہی بکری ذبح کرو۔‘‘ پھر ایک وقت آیا کہ آپؓ کے کاروبار میں بہت برکت پیدا ہوئی۔ ان کے مال میں اتنا زیادہ اضافہ ہوگیا کہ آپؓ کا شمار مسلمانوں کے دولت مند ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ تنگی کے دنوں میں آپؓ نے مانگنے سے ہمیشہ اجتناب کیا اور اپنے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنائے رکھا، جو دینے پر تو آمادہ رہتا ہے، مگر لیتا کبھی نہیں۔
آپؓ نے اپنی وفات ۳۲ھ کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ: ’’میرے ترکے میں سے ہر بدری صحابی کو چار چار سو دینار دیے جائیں۔‘‘ اُس وقت فہرست تیار ہوئی تو یہ سو حضرات حیات تھے۔ ان میں آپؓ کی وصیت کے مطابق چار چار سو دینار حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ نے بھی قبول فرمائے۔ (البدایہ، ج: 7، ص: 164) حضوؐر اکرم ﷺ نے آپؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ کیوں کہ آپؐ نماز شروع ہونے کے بعد تشریف لائے تھے۔ گویا صحابہ کرامؓ مرتبہ، مقام، عقل و تدبر اور تقویٰ کی بنا پر امامت کے لیے آپؓ کو آگے کر تے۔ مستقبل کے تعلقات پر آپؓ کی گہری نظر تھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ: میں گواہی دیتاہوں کہ آں حضرتؐ نے فرمایا: ’’ان مجوس کے ساتھ اہل کتاب کے قانون کا سا معاملہ کرو۔‘‘ اس طرح آپؓ نے علومِ نبوت اور اجتہادی حیثیت کو جمع کرکے رہنمائی دی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔