عَنْ أَبِی الدَّرْدَاؓئِ، قَالَ: أَوْ صَانِی خَلِیْلِیﷺ أَنْ: ’’لَاتُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَ إِنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِّقْتَ، وَلَا تَتْرُکْ صَلَاۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّداً، فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّدًاً فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃ، وَلَا تَشْرَبِ الخَمْرَ، فَإِنَّھَا مِفْتَاحُ شَرٍّ۔‘‘
(حضرت ابودرداؓ کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھ کو نصیحت کی ہے کہ: ’’تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا، اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائو اور جلا دیے جائو۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر مت چھوڑنا، کیوںکہ جس نے جان بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پناہ اُٹھ گئی۔ تم شراب مت پینا، کیوںکہ شراب تمام برائیوں کی کنجی ہے۔‘‘) (سنن ابن ماجہ: 4034)
اس حدیث مبارک میں نبی اکرمﷺ نے نہایت ہی اختصار کے ساتھ اعلیٰ درجے کی تین نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں۔
پہلی نصیحت شرک نہ کرنا۔ شرک ذ ہنی اُلجھائو اور عملی گمراہی کو جنم دیتا ہے اور انسان کو راہِ حق سے ہٹا دیتا ہے۔ توحید کا تصور انسان کو ہدایت کی روشن راہ دِکھاتا ہے۔ توحید اللہ کی ذات کو کائنات میں وحدہٗ لاشریک ماننا ہے۔ اور یہ ماننا کہ انسانوں کو نظامِ حیات دینا بھی اسی کا حق ہے، کسی اَور کا نہیں ہے۔ اللہ کو ماننا مگر اس کے احکامات کو نہ ماننا عملی شرک ہے۔ الٰہی احکامات کے خلاف اور متصادم نظام کو اختیار کرنا بھی شرک کی ایک صورت ہے۔ آج اللہ کی ذات کی توحید کے تذکرے کے ساتھ افعال و اعمال اور نظام کے شرک کو عمومی طور پر نظراَنداز کردیا جاتا ہے، یہ عصرِحاضر کی گمراہی اور بے عملی ہے۔
رسول اللہﷺ دوسری نصیحت میں ترکِ نماز کا نہایت ہی نقصان دہ نتیجہ بیان کررہے ہیں کہ بے نمازی پر سے اللہ تعالیٰ کا ذمہ اُٹھ جائے گا۔ یہ اس لیے ہے کہ نماز انسان کی روح کی پاکیزگی، ترقی، خدا سے تعلق اور اس کے انوارات کے حصول کا اہم ترین ایک ذریعہ ہے۔ جو مسلمان نماز ادا کرنا چھوڑ دیتا ہے، گویا اس نے تباہی و بربادی کا ایک بہت بڑا راستہ اپنے لیے کھول لیا۔ ترکِ نماز کا نتیجہ اپنے آپ کو اللہ کی حفاظت اور پناہ سے نکال کر خطرات میں ڈالنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص پہاڑ پر سے اپنے آپ کو لُڑھکا دے۔ اسے کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔
رسول اللہﷺ تیسری نصیحت میں شراب خوری کو برائیوں کی چابی اس لیے فرما رہے ہیں کہ اس سے انسانی دماغ اور جسم کا نظام مختل اور غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔ صحیح غلط کی تمیز ختم ہوجاتی ہے، جس سے اس کے افعال و اعمال اور رویوں پر بُرے اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو دین و دنیا کی تباہی وبربادی اور ناکامی کا سبب بنتی ہے۔
مذکورہ بالا تین چیزیں نہایت مختصر، مگر بہت اہم ہیں۔ وہ فرد اور معاشرہ جو اِن اُمور کا لحاظ کرلیتا ہے، وہ کامیابی اور کامرانی کی راہ پہ گامزن ہوجاتا ہے۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔