روزِ قیامت کے پانچ سوال

روزِ قیامت کے پانچ سوال

روزِ قیامت کے پانچ سوال

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ’’لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنَِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْئلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَا أَفْنَاہُ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْماَ أَبْلَاہٗ وَمَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اِکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا أَنْفَقَہٗ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ‘‘۔

(حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’نہ ہٹیں گے قدم کسی بندے کے‘ یہاں تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں اس سے پوچھ لیا جائے: 1۔ اپنی عمر کس میں فنا کی؟ 2۔ جوانی کو کن چیزوں میں ضائع کیا؟3۔ مال کہاں سے کمایا؟ 4۔ اور کس میں خرچ کیا؟ 5۔ اور علم پر کتنا عمل کیا۔) (سنن ترمذی،2416)

مغربی تہذیب کے غلبے کی وَجہ سے انسان شخصی آزادی میں غیرمعتدل آزادی کا قائل ہوگیا ہے۔ اس نے گمراہ کن سوچ کو جنم دیا اور ہر معاملے میں انسان کو بے لگام کردیا، حال آں کہ مہذب معاشروں میں انسان کو عمل کی آزادی ایک حد تک ہے۔

اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ نظامِ زندگی کے بنیادی اُمور میں یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں انسان کو پانچ سوالوں کے جواب لازماً دینا ہوں گے:

پہلا سوال: زندگی ایک امانت ہے، اسے کیسے بسر کیا؟ طرزِزندگی‘ اجتماعیت اور بنیادی انسانی اَوصاف و اَخلاقیات کے دائرے میں تھا، یا حیوانی خواہشات کے غلبے کے ساتھ زندگی گزاری؟ فطری ہدایات؛ شریعت کو عملی زندگی میں کس حدتک جگہ دی؟

دوسرا سوال: جسمانی طاقت اور جوانی کی صلاحیتیں بھی ایک امانت ہیں ، اس کا استعمال کس طرح کیا؟ جوانی کی نعمت کو کن مفید کاموں میں لگایا؟ اَخلاقی اور شرعی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی جوانی کا بہتر استعمال کیا‘ یا خواہشاتِ نفس کی اتباع میں لگا دی؟ ملازمت میں اپنے انتظامی اختیارات کا درست استعمال کیا‘ یا غلط؟

تیسرا سوال: مال کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ وہ حلال طریقوں سے حاصل کیا یا حرام طریقوں سے؟ جائز حقوق کے ساتھ مال حاصل کیا‘ یا دوسروں کے حقوق پامال کیے اور مال سمیٹ لیا؟ اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے رشوت اور بھتہ خوری کے ساتھ ناجائز طور پر دولت جمع کی؟

چوتھا سوال: اس مال کو کہاں خرچ کیا؟ ذاتی ضروریات، ماں باپ، بیوی بچوں ، اعزہ و اقربا، ہمسائے، ضرورت مند لوگوں اور فلاحِ انسانیت کے کاموں میں توازن کے ساتھ خرچ کیا‘ یا فضول خرچی اور اِسراف کی عادت تھی اور حرام امور میں خرچ کیا؟

پانچواں سوال: جو علم و فہم اور شعور ملا‘ خود اس پر عمل کیا؟ یا صرف دوسروں کو تلقین اور وعظ و نصیحت کرتے رہے اور خود عمل کے کورے رہے اور خوداحتسابی پر دھیان نہیں دیا۔ علم کا حق یہ ہے کہ اس کو محفوظ رکھے، اس کو پھیلائے، اس پر خود عمل کرے اور زیرتربیت لوگوں کی اس پر تربیت کرے۔ مؤمن کا شرف اسی میں ہے کہ اللہ نے اس کو جو بھی نعمت دی ہے، وہ اس کا حق ادا کرے۔ زندگی، جوانی، مال اور علم کا حق ادا کرے۔

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز

پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ  گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔  "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

مؤمنانہ فراست کا تقاضا

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز اگست 10, 2021

عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز جنوری 14, 2023

اچھے اور بُرے انسان کی پہچان

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ: خَیْرُکُمْ مَنْ یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَ یُؤْمَنُ شَرُّہٗ، وَشَرُّکُمْ مَنْ لَّا یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَلَا یُؤْمَنُ شَرُّہٗ۔ (الجامع للتّرمذی، حدیث 2263) (سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول الل…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز ستمبر 11, 2023

معاہدۂ  حِلفُ الفُضول کی اہمیت

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز مارچ 14, 2021