امریکا اور طالبان کے درمیان ’’دوحہ امن معاہدہ‘‘ کا مکمل متن
مترجم: پروفیسر ڈاکٹر شاہ زیب خان، لاہور
(سال 2020ء کے آغاز میں مسئلۂ اَفغانستان کے حوالے سے طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29؍ فروری 2020ء بروز ہفتہ کو ایک مقامی ہوٹل میں طے پایا۔ امن معاہدے پر دستخط کی اس تقریب میں دنیا بھر کے 50 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ معاہدے پر افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر (جن کو 2018ء میں امریکی درخواست پر پاکستان نے جیل سے رہا کیا تھا) اور افغان نژاد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے درمیان ہوا، جس پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بہ طورگواہ دستخط کیے۔
طالبان امریکا امن معاہدے کی اصل حقیقت، جسے سمجھنا ضروری ہے۔ اس میں پہلی قابل توجہ چیز یہ ہے کہ اس معاہدے میں مختلف جگہوں پر ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ کے بارے میں 16 دفعہ یہ جملہ لکھا گیا ہے کہ ’’جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں‘‘۔ دوسری چیز جو اس سے بھی زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ اسی معاہدے میں دس مرتبہ یہ لکھا گیا ہے کہ: ’’امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات‘‘ کے خلاف اٹھنے والے ہر اقدام اور عمل کو روکنے کی طالبان نے مکمل یقین دہانی کرائی ہے اور ضمانت دی ہے۔ اسی طرح درجِ ذیل جملے ایک سے زیادہ مرتبہ اس معاہدے کا حصہ ہیں:
(1)معاہدے کی سب سے پہلی شق ہی یہ ہے کہ: ’’کسی فرد اور گروہ کو افغانستان کی سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ (2)امریکا سے رہائی پانے والے طالبان قیدی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔ (3) جو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں، افغانستان میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ (4) جو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں، طالبان کو ان کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی بالکل اجازت نہیں ہے۔ (5) جو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں، انھیں طالبان نہ بھرتی کرسکتے ہیں، نہ ان کی تربیت کر سکتے ہیں، نہ ہی ان کو فنڈ اکٹھا کرنے اور سر زمینِ افغانستان میں رہنے کی اجازت ہے۔ (6) جو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں، انھیں افغانستان میں کسی قسم کی کوئی پناہ اور رہائش گاہ نہیں دی جائیگی۔ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ کا باعث نہ بنیں۔(7) جو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں، ان کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا کوئی قانونی دستاویزات دینے کی بالکل اجازت نہیں ہے‘‘۔
گویہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ممکنہ جتنے اندرونی و بیرونی خطرات ہوسکتے ہیں، ان کی طالبان سے ضمانتیں لی گئی ہیں اور اگر ایسا کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے تو انھیں ان خطرات سے نمٹنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
تیسری اہم چیز اس معاہدے میں یہ ہے کہ جو بھی اقدامات کیے جائیں گے، وہ اپنے طے شدہ طریقۂ کار اور وقت پر ہوں گے۔ مثلاً ’’افغان اسلامی حکومت‘ افغانستان میں تمام شرکا کے اندرونی مذاکرات کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی‘‘ کہ لوٹ کھسوٹ کی ایک ایسی جامع حکومت قائم کی جائے، جس سے افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات اٹھا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے کردار بھی ادا کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ تا حال نہ افغان حکومت کا باقاعدہ اعلان ہو سکا ہے اور نہ ہی یومِ آزادی حکومتی سطح پر منایا گیا ہے۔
دوحہ معاہدے کے اصل متن کے عنوانات اور ذیلی نمبرات کو مِن و عَن انگریزی سے نقل کیاگیا ہے۔ قارئین کے لیے اس کے انگریزی متن کا اُردو ترجمہ پیش ہے۔ ادارہ)
’’دوحہ امن معاہدہ‘‘
’’افغانستان میں امن لانے کے لیے ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے درمیان معاہدہ 29؍ فروری 2020ء __ بہ مطابق۵؍ رجب۱۴۴۱ہجری قمری تقویم اور 10؍ حوت 1398 ہجری شمسی تقویم __ کوہوا۔
یہ جامع امن معاہدہ چار حصوں پر مشتمل ہے:
1۔ ضمانتیں اور ان کو پورا کرنے کا طریقۂ کار، جن کے ذریعے سے کسی گروہ یا فرد کی طرف سے افغانستان کی سر زمین کو امریکا یا اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے سے روکا جائے گا۔
2۔ ضمانتیں اور ان کے نافذ کرنے کے طریقۂ کار اور ٹائم لائن، جس کے تحت افغانستان سے تمام بیرونی افواج کا انخلا ہوگا۔
3۔ بیرونی فورسز کے مکمل انخلا کی ضمانتوں اور ان کی ٹائم لائن کے اعلان کے بعد اور بین الاقوامی گواہان کی موجودگی میں اس اعلان کے بعد کہ افغانستان کی سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ افغانستان کے اندر افغانیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز 10؍ مارچ 2020ء کو کریں گے۔ جو کہ ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق۱۵؍ رجب۱۴۴۱ھ بنتا ہے اور ہجری شمسی کے مطابق 20؍ ہوت 1398 بنتا ہے۔
4۔ افغانستان کے اندرونی ڈائیلاگ اور مذاکرات کی لسٹ میں ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ دائمی اور جامع جنگ بندی کا ہوگا۔ افغانستان کے اندرونی مذاکرات کے تمام شرکا دائمی اور جامع امن کے حوالے سے عمل درآمد کی تاریخوں کے تعین کو زیرِبحث لائیں اور مشترکہ طور پر اُن کے اطلاق کا طریقۂ کار بھی طے کریں، جس کا اعلان افغانستان کے سیاسی مستقبل کے روڈمیپ کی تکمیل اور اتفاق کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔
درجِ بالا چار حصے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا اطلاق ان میں سے ہر ایک کی اپنی طے شدہ حالت اور ٹائم لائن کے مطابق ہوگا۔ پہلے دو حصوں پر اتفاق، دوسرے دو حصوں کی راہ ہموار کرنے کی شکل میں ہوگا۔
پہلا اور دوسرا حصہ
پہلے اور دوسرے حصے پر عمل درآمد کے طے شدہ اُمور یہ ہیں:
فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دونوں حصے آپس میں مربوط ہیں۔
(فریقِ اوّل) امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ پر اس معاہدے کی رُو سے لازم ہے کہ جو علاقے ان کے دائرۂ اختیار میں ہیں، ان پر اس (معاہدے) پر عمل درآمد کروائیں، یہاں تک کہ نئے بندوبست کے بعد ’افغان اسلامی حکومت‘ __ جس کا تعین افغانستان کے اندر افغانیوں کے مذاکرات اور تبادلۂ خیال کے نتیجے میں ہوگا__ قائم ہوجائے۔
(فریقِ ثانی) متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اس بات پر پُرعزم ہے کہ وہ افغانستان سے متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادیوں اور شریک پارٹنرز کی تمام مسلح افواج سمیت غیر سفارتی عملے، پرائیویٹ سیکیورٹی کنٹریکٹر، تربیت کار، مشیران اور معاونت کاروں کا اِنخلا معاہدے کے اعلان کے چودہ (14) مہینوں میں کرے گا اور اس کے بارے میں درجِ ذیل اقدامات کرے گا:
A۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادیوں اور شریک پہلے 135 دنوں میں درجِ ذیل یہ اقدامات کریں گے:
1۔ وہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد گھٹا کر 8600کریں گے اور اسی تناسب کے ساتھ اپنے اتحادیوں اور شریکوں کی فورسز میں بھی کمی کریں گے۔
2۔ پانچ ملٹری بیسز (فوجی ہیڈ کوارٹرز) سے متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادی اور شریک پارٹنرز اپنی تمام فورسز ہٹا لیں گے۔
B۔ اس معاہدے کے دوسرے حصے میں درج فرائض پر، عزم اور عمل کے ساتھ، امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ اور متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادی اور شریک درج ذیل پر عمل کریں گے:
1۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادی اور شریک افغانستان سے اپنی تمام بقیہ فورسز کا انخلا 5 سے 9 مہینوں میں کریں گے۔
2۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا)، اس کے اتحادی اور شریک اپنی تمام فورسز بقیہ تمام بیسز (فوجی مراکز) سے ہٹالیں گے۔
C۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) تمام متعلقہ اَطراف کے ساتھ ایسے منصوبے پر __ جس کے ذریعے حربی اور سیاسی قیدیوں کو تمام متعلقہ اَطراف کی ہم آہنگی اور اجازت کے بعد بحالیٔ اعتماد کی غرض سے رہا کیا جا سکے __ فوراً کام کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ کے 5000 قیدیوں اور دوسری طرف کے 1000 قیدیوں کو 10؍ مارچ 2020ء __ بہ مطابق ہجری قمری تقویم۱۵؍ رجب۱۴۴۱ء اور بہ مطابق ہجری شمسی تقویم 20؍ ہوت، 1398 __ جو کہ افغانستان کے داخلی مذاکرات کے آغاز کا پہلا دن ہے،دونوں متعلقہ اطراف کا ہدف یہ ہے کہ اس تاریخ سے اگلے تین ماہ میں تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) بھی اس ہدف کو مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ اس بات کا عزم کرتی ہے کہ اس کے رہائی پانے والے قیدی اس معاہدے میں درج ذمہ داریوں پر عمل کریں گے، تاکہ وہ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
D۔ افغانستان کے داخلی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __کے ممبران پر موجود امریکی پابندیوں اور اُن کی گرفتاری پر مقرر انعامات کی فہرست پر ایک انتظامی نظرِثانی کا آغاز کرے گا، تاکہ ان پابندیوں کو ختم کرنے کے ہدف کو 27؍ اگست 2020ء __بہ مطابق ہجری قمری تقویم کے۸؍ محرم۱۴۴۲ء اور ہجری شمسی تقویم کے 6؍ سنبلہ 1399 __تک حاصل کیا جاسکے۔
E۔ افغانستان کے داخلی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے دوسرے ممبران اور (حکومتِ) افغانستان کے مابین سفارتی بات چیت کا آغاز کیا جائے گا، تاکہ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ کے ممبران کے نام پابندیوں والی فہرست سے 29؍ مئی 2020ء __بہ مطابق۶؍ شوال۱۴۴۱ء قمری ہجری تقویم اور 9؍ جوزا 1399 بہ مطابق ہجری شمسی تقویم __ تک نکلوائے جاسکیں۔
F۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اور اس کے اتحادی افغانستان کی علاقائی سا لمیت اور سیاسی خودمختاری اور اس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کے خلاف طاقت کے استعمال اور اس کی دھمکیاں دینے سے گریز کریں گے۔
تیسرا حصہ
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی، امارتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ درجِ ذیل اقدامات کریں گے، تاکہ کوئی فرد یا گروہ، القاعدہ سمیت، افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال نہ کریں:
1۔ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ اپنے کسی بھی ممبر، فرد یا گروہ، القاعدہ سمیت کو افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
2۔ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ ان تمام افراد اور گروہوں کو ایک واضح پیغام دیں گے کہ جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، ان کے لیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ کے ممبران کو ہدایت دیں گے کہ وہ ایسے گروہوں سے تعاون نہ کریں، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالیں۔
3۔ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ افغانستان میں کسی ایسے فرد یا گروہ کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرہ پہنچانے سے روکیں گے۔ اور ان کو بھرتی کرنے، تربیت دینے اور پیسہ اکٹھا کرنے سے منع کریں گے۔ ان کو اس معاہدے کی ذمہ داریوں کے مطابق اپنے ہاں رہنے بھی نہیں دیں گے۔
4۔ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ اس بات پر پُرعزم ہیں کہ جو افغانستان میں بین الاقوامی قوانینِ ہجرت اور اس معاہدے کے عزائم کے مطابق پناہ یا رہائش چاہتے ہوںگے، ان کے ساتھ اس طرح معاملات کریں گے کہ وہ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث نہ بنیں۔
5۔ امارتِ اسلامی افغانستان __جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ ایسے لوگوں کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت، یا اور قانونی دستاویزات جاری نہیں کریں گے، جو متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں۔
چوتھا حصہ
1۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم کرے اور اس کی تائید کرے۔
2۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) اور اماراتِ اسلامی افغانستان __ جس کو امریکا ایک ریاست کے طور پرتسلیم نہیں کرتا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں __ ایک دوسرے سے مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اور اُمید کرتے ہیں کہ متحدہ ہائے ریاست اور نئے بندوبست کے بعد ’افغان اسلامی حکومت‘ __ جس کا تعین افغانستان کے داخلی ڈائیلاگ کے بعد ہوگا __ کے مذاکرات کامیاب ہوں گے۔
3۔ متحدہ ہائے ریاست (امریکا) نئے بندوبست کے بعد ’افغان اسلامی حکومت‘ __ جو کہ افغانستان کے داخلی ڈائیلاگ اور مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئے گی __ کے ساتھ تعمیرِنو کے حوالے سے معاشی تعاون چاہے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دے گا۔
دوحہ میں 29؍ فروری 2020ء __ بہ مطابق۵؍ رجب۱۴۴۱ھ ہجری قمری تقویم اور 10؍ ہوت 1398 ہجری شمسی تقویم __ کو دستخط ہوئے، جس کی نقل پشتو، درّی اور انگریزی زبانوں میں بھی تیار کی گئی ہیں اورجن کا متن مساوی طور پر مستند ہے‘‘۔
ٹیگز
متعلقہ مضامین
جنگی بلاکوں کی ذہنیت‘ کلونیل عہد کا تسلسل ہے
ہمارے گرد و پیش کی دنیا‘ نِت نئے حادثات و واقعات کی زد میں رہتی ہے۔ ہم مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ بہ تازہ صورتِ حال کو ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کی دُنیا …
افغانستان اور پاکستان کا معاشی مستقبل
افغانستان‘ تاریخ کے اَن مِٹ نقوش کا حامل خطہ ہے، جو صدیوں پرانے طاقت ور خاندانوں اور ان کی بادشاہتوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ بدیسی طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بھی رہا ہے۔ اس …
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
افغانستان کو درپیش معاشی چیلنجز
یورپی نوآبادیاتی نظام کو ختم ہوئے نصف صدی سے زائد ہوچلے، لیکن ہم گزشتہ ساٹھ ستر سالوں کے بد ترین تجربے اور اِبتلاؤں کا سامنا کرنے کے باوجود یہ نہیں سمجھ سکے کہ آزادی کہتے…