عَنْ سَھْلٍ یَعْنِیْ: ابْنِ سَعْدٍؓ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: ’’واللّٰہِ! لَاَنْ یَّھْدِیَ اللّٰہُ بِھُدَاکَ رَجُلاً وَاحِداً خَیْرٌ لَکَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘۔ (سنن ابوداؤد : 3661)
(حضرت سہل بن سعدؓ، نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ: ’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تمھاری رہنمائی کی وَجہ سے اگر ایک شخص کو ہدایت عطا کردے تو یہ تمھارے لیے سُرخ اونٹوں (اُس وقت کے مطابق بڑا قیمتی مال صدقہ کرنے) سے بہتر ہے۔)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ دینی دعوت دینے کی اہمیت بیان کررہے ہیں۔ یعنی دینی علم کی دوسروں کو تعلیم دینا، ان کی ذہن سازی کرنا اور ان کو گمراہی سے بچا لینے کا اجر ایسے ہی ہے، جیسے آپ نے کئی سُرخ اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیے۔ عربوں کے ہاں سُرخ اونٹ بہت قیمتی ہوتے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے دعوتِ دین کی اہمیت کے بیان میں اپنے دور کے لوگوں کی ذہنی ساخت کے مطابق مثال ذکر فرمائی۔
انبیاعلیہم السلام کی اصل ذمہ داری دعوتِ دین کی تھی۔ اس لیے داعیانہ عمل پیغمبرانہ عمل کی پیروی ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق یہ عمل آپﷺ کے اوصاف جمیلہ میں سے ہے۔ (الاحزاب: 46) اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا: اے رسولؐ! جو آپ پر نازل ہوتا ہے، اس کو آپ آگے پہنچا دیجیے۔ (المائدہ: 67) آپؐ کی نبوی اور رسالت کی ذمہ داری کا اہم اور کلیدی پہلو یہ تھا کہ آپؐ لوگوں کو پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ دین سمجھائیں۔ چناں چہ آپؐ نے مقاصد ِقرآن بیان کرنے میں ذرہ بھر کمی نہ چھوڑی۔ اس مقصد کے لیے دن رات ایک کرکے اپنی زندگی، صلاحیتیں اور قیمتی اثاثہ جات وقف کردیے۔ آپؐ کی ہر ممکن کو شش تھی کہ ہر گمراہ راہِ ہدایت پر آجائے۔ آپﷺ کو یہ فکر دامن گیر رہتا کہ کہیں گمراہوں کی گمراہی کا سوال اللہ تعالیٰ مجھ سے نہ فرمالیں۔ قرآن نے مختلف اسالیب کے ساتھ اس بابت آپﷺ کو تسلی دی۔ (الزمر: 41، الغاشیہ: 22 وغیرہ) اس فریضے کی ادائیگی اور لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے میں آپؐ کو اتنا انہماک تھا کہ قرآن کو بالآخر یہ کہنا پڑا کہ آپ اپنے آپ کو حد سے زیادہ گھائل نہ کریں۔ (الکہف: 6)
حضورﷺ کی اتباع میں صحابہ کرامؓ اور علمائے حق کا داعیانہ طرز ِعمل بھی بڑا جاںفشانی کا رہا ہے۔ دین کی تعبیر و تشریح اور ابلاغ میں قرآنی بیان کے مطابق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کیے بغیر ہمیشہ کلمۂ حق کہنے کا رہا ہے۔ (سورہ مائدہ: 54) یہاں تک کہ انھیں جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے بھی دوچار ہونا پڑا،مگر وہ راہِ حق کی رہنمائی کے لیے سر بہ کف رہے۔ چوں کہ دعوتِ دین کے لیے مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اس لیے پروردگار اس کا اَجر بھی دیگر اعمال کی نسبت زیادہ عطا فرماتے ہیں۔اس زوال پذیر دور میں خاص طور پر دینِ اسلام کی اصل روح کے مطابق حکمتِ عملی کے ساتھ دعوت دینا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…