حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادوں پر کم از کم تین فی صد سے بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت زرعی پیداوار کے تسلسل کو حاصل ہے۔ اشیائے صَرف کی قدر میں اضافے کے عمل میں پہلا قدم دراصل زرعی پیداوار کا ہی ہوتا ہے۔
ہماری نااہلی اور ناکامی کی طویل فہرست میں زرعی شعبے سے متعلق جدید تکنیکی اور تحقیقی عمل کا فقدان ہمیں خوراک کی مستقل عدمِ فراہمی کا شکار کرچکی ہے۔ چناں چہ بڑی اجناس میں پاکستان کی پیداواری اوسط دنیا کی اوسط کے نصف سے بھی کم ہے۔ صرف گندم کو ہی لے لیجیے جس میں ہماری کارکردگی قدرے بہتر ہے۔ اس میںپاکستان کی اوسط قریباً ایک ٹن اور ہمارے ہمسایہ ملک چین کی دو ٹن فی ایکڑ ہے۔
ہماری نااہلی کا یہ قصہ اب ایک دہائی پر محیط ہے اور آج ہماری خوراک کی صورت میں درآمدات سولہ ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ یاد رہے یہ ایسی درآمدات ہیں جنھیں روکا نہیں جاسکتا۔ لوگ چائے کی درآمدات کا کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مد میں سالانہ پچاس کروڑ ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ اگر سارا پاکستان چائے پینا چھوڑ بھی دے پھر بھی ہماری درآمدی ضرورت ٹس سے مس نہیں ہوگی۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان2022ء تک سالانہ بنیادوں پر آٹھ ارب ڈالرکے لگ بھگ اپنے بیرونی قرض میں اضافہ کررہا تھا۔ اگر ہم نے زرعی شعبے سے یہ بے اعتنائی نہ برتی ہوتی تو شاید آج ہم پر اس قدر قرض نہ ہوتا اور ہماری بقا کو لاحق خطرات نسبتاً کم ہوتے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مقتدرہ نے اس پہلو پر سوچنا شروع کردیا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ٹیکنوکریٹس کے روپ میں عادی سرمایہ داروں نے وہ حل پیش کیا ہے جو یورپ اور امریکا اپنی معیشتوں میں عرصہ ہوا متعارف کروا چکے ہیں ۔ وہاں شہری آبادیوں میں بے پناہ اضافے اور زرعی پیداوار میں کمی کے خطرات کی وجہ سے کمپنیوں کو ٹیکس کی چھوٹ اور آسان شرائط پر قرضے اور سبسڈی پر آلات کی فراہمی نے زرعی پیداوار کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کردیا اور دنیا کارپوریٹ فارمنگ کے ثمرات سے متعارف ہوئی۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ملکوں میں صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ یہاںایک بہت بڑی آبادی اس شعبے سے وابستہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سے موجود افرادی قوت کی تکنیکی و فنی مہارت میں اضافے کی حکمتِ عملی بنائی جائے، نہ کہ انھیں ایک مشکل مقابلے سے دوچار کردیا جائے، جہاں سب سے بڑا چیلنج انگریزی میں لکھے قوانین اور شنوائی کے لیے کمزور مقامی عدالتیں و انتظامیہ جو کارپوریٹ فارمنگ کے لبادے میں مقتدر قوتوں کی فرنٹ کمپنیوں سے کسان کے لیے حق لینے سے قاصر ہی رہیں گی۔ خلیجی ممالک نے اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، ایسے میں حکومت کے ذمے زمین اور پانی کی فراہمی ہوگا اور بیرونی سرمایہ کار کی جانب سے سرمایہ اور تکنیکی مہارت متعارف کروائی جائے گی۔
ایسے میں جب ہمارا کسان اس حوالے سے پیچھے رہ گیا ہے تو ایک حد تک نئی تکنیک و مہارت بہرحال ہمیں فائدہ دے گی اور ہماری ملکی پیداوار میں اضافے کا سبب بنے گی لیکن اس کے بدلے میں ہمارا کسان کتنا منظم ہوتا ہے اور اسے مقابلے کے لیے کتنا ہموار میدان ملتا ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے ۔ کیوں کہ ہمارا قصہ تو یہ ہے کہ ہم طاقتور سے اپنا پانی تک تو چھڑوا نہیں سکتے یہ کارپوریٹ سیکٹر میں بدیشی زبان اور قوانین کے ہوتے ہوئے معلوم نہیں کسان کیسے فائدہ اٹھائیں گے؟
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
یہ سب کون کرے گا؟
کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے …