کرونا بجٹ؟

محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف
جولائی 07, 2020 - معاشیات
کرونا بجٹ؟

بجٹ 2020-21ء قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں، تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے حکومت کی نااہلی اور عوام کی مشکلات کے تناظر میں غیرسنجیدگی کے رویے پر خوب تنقید کی۔ ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شاید ہی ان میں سے کوئی عوام کی حالتِ زار کا درد رکھتا ہو۔ دراصل حکومتی پارٹی، بیوروکریسی اور سیاسی پارٹیوں سمیت یہ سب ناقدین دراصل ایک ہی ٹرائیکا کا حصہ ہیں، جس میں جاگیردار، سرمایہ دار اور ہر قسم کی بیوروکریسی شامل ہے۔ پاکستان میں معیشت کے دو رُخ ہیں؛ ایک کا تعلق اس ٹرائیکا کی معاشی طاقت سے ہے اور دوسرے کا تعلق عام عوام سے ہے۔ ہر آفت اور مشکل کی گھڑی میں یہ لوگ غریب، بھوکے، آفت زدہ اور بیمار لوگوں کودکھا کر امداد اور قرضے حاصل کرتے ہیں اور ان قرضوں میں سے بہت کم عام عوام کی فلاح کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چناںچہ کرونا کی آفت کے بعد اس عمل میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے سرمایہ دار متحرک ہو چکے ہیں۔ اُن کی طرف سے کاروبار میں آسانی کے لیے مراعات پر مراعات کا تقاضا بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری جانب بیوروکریسی اعلان کی جانے والی مراعات کو پروسیجر کی بھول بھلیوں میں ڈال کر اپنا حصہ وصولنے کی حکمتِ عملی پر کارفرما نظر آتی ہے۔ یوں معیشت کے وہ شعبے جو عام انسان کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہیں، ان میں نت نئے مافیاؤں کاراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بحران کے بعد دوسرا بحران جنم لے رہا ہے۔ 
ایسا کہنا کہ بجٹ ایک ایسی دستاویز ہے، جو سب مسئلے حل کردے تو یہ درست نہیں۔ ہمارے ماحول میں تو یہ ایک مجبوری ہے، جسے ہر سال دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے اور بعد میں کچھ شعبوں کے علاوہ اس پر عمل ہوا یا نہیں؟ اتنا اہم نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات غور طلب ہے کہ گزشتہ سال کے بجٹ کے تناظر میں کیا کرونا وبا کے بعد مقامی بینکوں کو سود کی ادائیگی، دفاع اور انتظامیہ کے خرچوں میں کمی آئی؟ ایسا نہیں ہے، لیکن ترقیاتی کاموں  اور تعلیم کے شعبوں میں ضرور کمی لائی گئی۔ یہی منظر نئے بجٹ کا بھی ہے، جہاں بینکوں کو سود کی ادائیگی گزشتہ سال 27.1 کھرب روپے سے بڑھا کر 29.5 کھرب روپے، دفاع 12.3 کھرب سے بڑھا کر 12.9 کھرب اور انتظامیہ کا بجٹ 4.5 کھرب سے بڑھا کر 4.8 کھرب کردیا گیا ہے۔ یوں تو ترقیاتی بجٹ بھی 7.6 کھرب سے 8.9 کھرب کردیا گیا ہے، لیکن شاید ہی کوئی سال گزرتا ہو، جب ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی نہ کی جاتی ہو۔ چناںچہ گزشتہ سال اس بجٹ میں 322 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی اور مندرجہ بالا تمام مدات میں دورانِ سال بجٹ سے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔ دراصل حکومتوں کا تبدیل ہونا، نت نئی پارٹیوں کی صورت میں سیاسی کھیل، دوسری جانب عوام سے تعاون کا مطالبہ اور ان کی ترقی و خوش حالی کے نعرے‘ طویل مدت قبل لکھے جانے والے ڈرامے کا پلاٹ اور ڈائیلاگ ہیں، جس میں موجودہ نظام کی موجودگی میں تبدیلی دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف

محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA  اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔