بدلتا ہوا عالمی سیاسی منظر نامہ (شمالی اوقیانوس سے بحر الکاہل کی طرف)

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
ستمبر 01, 2020 - عالمی
بدلتا ہوا عالمی سیاسی منظر نامہ (شمالی اوقیانوس سے بحر الکاہل کی طرف)


4؍اپریل 1949ء کو امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی (ڈسٹرکٹ آف کولمبیا) میں ایک معاہدہ وجود میں آیا۔ اس معاہدے کا نام فرانسیسی زبان میں رکھا گیا، جسے انگریزی میں NATO کہا جانے لگا۔ اس کا صدر دفتر بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں قائم کیا گیا۔ اس معاہدے میں شریک ابتدائی ممالک پرتگال، اٹلی، نیدرلینڈ، لکسمبرگ، فرانس، برطانیہ اور امریکا وغیرہ تھے۔ 1954ء میں سوویت یونین نے تجویز دی کہ وہ یورپ میں قیامِ امن کے لیے نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ تاہم نیٹو کے رُکن ممالک نے اس نظریے کی سختی سے مخالفت کی۔ اس کے بعد 14؍ مئی 1955ء کو سوویت یونین نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایک علاحدہ معاہدہ تشکیل دیا، جسے ’’وارسا پیکٹ‘‘ (Warsaw Pact) کا نام دیا گیا۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں معاہدے پر دستخط ہوئے، جسے ’’معاہدۂ دوستی، تعاون اور باہمی اعانت‘‘ کا نام دیا گیا۔ 
انسانی سماج کی ہیئت کو تبدیل کرنے میں ٹیکنالوجی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی سائنسی ترقیات انسانی زندگی کو جدت کا لبادہ پہنا تی ہیں۔ یہی سائنس اب ایک اور صنعتی انقلاب کا روپ دھارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جہاں مشین انسانی دماغ کے برابر استعداد کے ساتھ اقوامِ عالم کی ترقی میں معاون بنتی جا رہی ہے، مادے میںپنہاں اصولوں کی جانکاری کا علم رکھنے والے سائنس دان اور معاشرتی و سماجی علوم کے اصو لوں سے آگاہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا اب چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہوچکی ہے، جس میں انسانی دماغ کی صلاحیت کے برابر مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹس اور ان جیسی مشینیں زندگی کو مزید بدل کررکھ دیں گی۔ 
ذرا ماضی پر نظر دوڑائیں! دنیا میں پہلا صنعتی انقلاب 1760ء سے 1820ء کے دورانیے میں آیا، جس میں پیداوار میں اضافہ کرنے کی غرض سے صنعتی شعبے میں مشینوں کوچلانے کے لیے پانی اور اس سے بنائی گئی گیس یعنی بھاپ کو ذریعہ بنایا گیا۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہاتھ کے بجائے پانی اور بھاپ کی توانائی سے مشینوں کو چلایا جانے لگا۔ اس کی بدولت دنیا میں بھاپ سے چلنے والے انجن ایجاد ہوئے۔ ا س ا نقلاب سے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں مکمل طور پر تبدیل ہوگئیں، بلکہ ان کی آمدنیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ 
دوسرا صنعتی انقلاب اس دور کی دو بڑی ایجادات تھیں؛ بجلی اور مواصلات کا نظام۔ بجلی، برقی مواصلات یعنی ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کو یہاں نمایاں مقام حاصل تھا۔ ریلوے کی تعمیر کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات سے صنعتی پیداوار میں حیران کن حد تک اضافہ ہوگیا۔ 1820ء سے شروع ہونے والا یہ عہد پہلی جنگِ عظیم یعنی 1919ء تک جاری و ساری رہا۔ 
تیسرا صنعتی انقلاب: بیسوی صدی کے آغاز میں دنیا نے تیسرے صنعتی انقلاب کو ایک جدید ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھا۔ جب انسان نے کمپیوٹر کا ابتدائی ڈھانچہ بنایا۔ الیکٹرانک ٹیکنالوجی سے برقی ٹیکنالوجی کی طرف قدم بڑھایا۔ اسی عہد میں انٹینا سے چلنے والا ٹیلی ویژن دریافت ہوا۔ اسی دور میں جہاز ایجاد ہوا، جس نے ذرائع نقل و حمل کی مشکلات پر قابو پا لیا۔ 
چوتھا صنعتی انقلاب: 1940ء میںکمپیو ٹر کی ایجاد سے اس انقلاب کا آغاز ہوا۔ یہ انقلاب بائیولوجیکل، فزیکل اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ایک ملاپ ہے، جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی مشینی ذہانت، بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خود کار گاڑیاں، جدید ڈرونز، تھری ڈی پرنٹنگ، کوانٹم (قابل تقسیم چھوٹا ترین یونٹ) مکینکس، کوانٹم کمپیوٹر، جدید کرنسی اور انٹر نیٹ کے علاوہ بائیو ٹیکنالوجی اور نینو (کروڑواں حصہ) ٹیکنالوجی پر مشتمل ڈیوائسز شامل ہیں، جو انسانی کام کو انتہائی کم کرکے ہر شعبے میں مثالی اور حیران کن تبدیلیاں متعارف کروا رہی ہیں۔ سائنسی ایجادات پیدائش دولت کے عمل کو آسان، سستا ا ور سرعت رفتار بنادیتی ہیں، جو انسانیت کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ کہلاتی ہیں۔ گزشتہ صدیوں میں ان ایجادات کا اظہار ایسے خطوں میں ہوا، جہاں انھیں مفادِ عامہ کے عمومی استعمال میں لانے کے بجائے محض گروہی اور طبقاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا رہا۔ استعماری طاقتوں نے انھیں چھوٹے ملکوں کے مادی وسائل کو لوٹنے کے لیے خوف و ہراس پیدا کرنے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ طویل عرصے سے وہ اپنی اسی روش سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اپنی ڈگر سے پیچھے ہٹنے کے بجائے، انسانیت کے استحصال کی ترقی کے نام پر نت نئی سازشیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ نیٹو کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ جس نے سرد جنگ کے نام پر انسانیت کو سرمایہ پرستی کی آگ میں مبتلا رکھا ہے۔ انھوں نے گزشتہ صدیوں میں دریافت ہونے والی ٹیکنالوجی اور اس کے ثمرات کو گروہی مفادات تک محدود رکھنے والا سماجی ڈھانچہ دنیا پر مسلط رکھا۔
اگرچہ آج دنیا میں چوتھے صنعتی انقلاب کے نام پر وجود میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی کی دریافت کے مراکز بھی شمالی اوقیانوس کے کنارے واقع ممالک ہی ہیں، لیکن ان کے ثمرات کو اقوامِ عالم میں فروغ دینے میں بحرا لکاہل کے کنارے آباد ممالک پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے وارسا پیکٹ کی جگہ نیا سماجی ڈھانچہ؛ SCO،BRICS، ترقیاتی بینک، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی شکل میں تشکیل دیا ہے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے ثمرات کا عمل آج پیدائشِ دولت کی صورت میں بحر الکاہل کے کنارے پر واقع خطوں کی طرف منتقل ہوتا جارہا ہے۔ خطے کی طاقتیںجس کے لیے نیا سماجی ڈھانچہ وضع کرنے میں مصروف ہیں۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔