اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم پانیوں کے باعث تجارتی قافلوں کے لیے جنوبی ایشیا پُرسکون گزرگاہ تھا۔ صدیوں سے تجارتی قافلے اسی خطے سے ایشیا کو سامانِ تجارت فراہم کیا کرتے تھے۔ تجارتی مفادات کے باعث دوسری اقوام کے لیے یہاں کا جغرافیا اور محلِ وقوع بھی اہمیت کا باعث بن گیا۔ اگلے دور میںجب معاشی مفادات نے نظاموں کی شکل اختیار کی تو یہ خطہ پھر نظا موں کے ٹکراؤ کے سبب بالادست اقوام کے درمیان تنازعے کا مرکز بن گیا۔ تزویراتی مفادات کے ٹکراؤ نے پورے خطے کو جنگ میں دھکیل دیا۔ 80ء کی پوری دہائی جہاد کے نام پر قتل و غارت جیسے فساد میں گزر گئی۔ پھر موجودہ صدی کے آغاز نے جنگ و جدل کا ایک نیا سامان پیدا کردیا، جو آج بھی جاری ہے۔ اس فساد کے باعث بے گناہ انسانیت کے خون سے پور ے ایشیا کا سرسبز خطہ سُرخ ہوگیا۔ خطے کا امن عنقا ہوگیا۔ علاقائی قوتیں اپنے معروضی حالات کے باعث اس وقت تو جنگ روکنے میں ناکام رہیں، البتہ اس تجربے سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، جس کے باعث آج وہ اس قضیے کو نمٹانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
ٹرائبیون کی یکم؍ اپریل 2021ء کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا ایشیا کے دورے پر نکلنا اصل میں امریکا کا افغانستان سے دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں طے شدہ شیڈول کا حصہ ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ دو روزہ دورے پر 5؍ تا 6؍ اپریل کو دہلی پہنچے تھے۔ اگلے دو روز کے لیے 7؍ تا 8؍ اپریل کو اسلام آباد کا دورہ کیا۔ پرنٹ نیوز ایجنسی کی 7؍ اپریل 2021کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل روسی وزیر خارجہ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی درخواست پر 2؍ اکتوبر 2012ء کو پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ روسی سفیر کے ہمراہ خصوصی معاون برائے افغانستان ضمیر کابلوف تھے۔ پاکستان میں مذاکرات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ معاشی تعاون اور دہشت گردی کے سد ِباب کے اقدامات بھی زیرِ بحث لائے گئے۔ افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے کا ساتھ ہونا اس بات کی علامت تھا کہ دورے کا بنیادی مقصد امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے لائحۂ عمل ترتیب دینا ہے۔
اس وقت مسئلۂ اَفغانستان کے حوالے سے درجِ ذیل ممالک فریق ہیں: پاکستان، ہندوستان، روس، چین اور امریکا۔ افغانستان کا خطہ گزشتہ 40 سال سے آگ کی لپیٹ میں ہے۔ اس آگ کی وجہ سے اردگرد کے تما م ممالک جھلسے ہوئے ہیں۔ امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں بھی وہ اُترا ہے، اس نے جمہوریت کے نام پر ملکوں کے پورے سماجی ڈھانچے کو مَسل کے رکھ دیا ہے۔ گویا اس کا کسی خطے میں اُترنا خوف و ہراس، قتل و غارت، دہشت گردی، انتہا پسندی اور غنڈ ہ گردی جیسی لعنتوں کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ کراچی کاروباری اعتبار سے پاکستان کا ہب تھا۔ علاقے میں دہشت گردی کو پروان چڑھاکر سارا سرمایہ سمندر پار منتقل کردیا گیا۔ بچے ماندے کاروبار پر غیر ملکی قومیں مسلط ہوگئیں۔ جس کے باعث معاشرتی ڈھانچہ اپنی اصل شناخت کھوچکا ہے۔ معاشرتی اضمحلا ل نے اَخلاقی اقدار تباہ کردیں۔ قوموں کی ہجرت کے باعث خطہ ابھی جاں بر نہیں ہوا تھا کہ افغانستان میں جنگ پھوٹ جانے سے 27 لاکھ مہاجرین کی یلغار نے پاکستان کے داخلی امن کو دائو پر لگا دیا۔ چالیس سال کے طویل عرصے میںوہ مہاجر آج سوا 4 کروڑ بن چکے ہیں۔ اسی امریکی غلبے نے پہلے مشرقِ وسطیٰ میں آگ لگائی۔ پھر ویت نام میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ وہاںسے ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد ناکامیوں اور نامرادیوں کی لاش کندھوں پر اٹھائے اگلا محاذ افغانستان میں کھول دیا۔ قتلِ انسانی کے ناحق خون سے اپنے آلودہ دامن کو مزید داغدار کرنے کے بعد اب اگلی مار کے لیے پر تول رہا ہے۔ سابق امریکی صدر کے مطابق یکم؍ مئی 2021ء کو اسے اپنی فوجوں کو نکالنا تھا، جب کہ حالیہ صدر کے بہ قول اب ہم ستمبر 2021ء تک اپنی فوجیں نکال لیں گے۔ شیطان اپنی شیطنت سے باز نہیں آتا۔ وعدے نبھانا ان کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے۔
جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے بعد سوویت یونین کا ہوا تھا۔ انسانی جانوں اور مال و متاع کے علاوہ اس کی سیاسی ساکھ تباہ ہوگئی۔ اسے عالمی کردار سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کا سیاسی اتحاد منتشر ہوگیا۔ قوموں کے اجتماع سے تو پیچھے ہٹ گیا، البتہ سلامتی کونسل میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ پیچھے ہٹنے سے اسے بے پنا ہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک جو عالمی سیاست میں اس کے قریبی حلقوں میں شمار ہوتے تھے، امریکا نے نہ صرف ان کے تمام وسائل لوٹ لیے بلکہ انھیں چن چن کر گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ سارا نقصان عالمی طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا ہونے سے ہوا تھا۔
چین خطے کا بہت اہم اور معاشی طور پر مضبوط ملک ہے۔ ایشیا میں بالخصوص اور اقوامِ عالم میں بالعموم امن کے قیام کے بغیر سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ سامراج نے بھر پور کوشش کی کہ ایشیا کو مستقل بداَمنی کا شکار رکھا جائے۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں پر جنگ مسلط رکھنے سے وہاں کے وسائل کو لوٹنے میں تو کامیاب ہوگیا، لیکن خطے میں مجموعی طور پر جنگی ماحول پروان چڑھانے میں ناکام رہا۔ بداَمنی سے تجارت تباہ ہوجاتی ہے، جب کہ چین کا معاشی ایجنڈا امن میں ہی فروغ پاسکتا۔ ایشیائی قوموں نے امریکی دہشت گردی کی حکمتِ عملی کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ گویا یہاں امریکا ناکام ہوگیا۔
ہندوستان اس خطے کا اہم ملک ہے۔ اگرچہ جتنی بڑی سرحد پاکستان کی افغانستان کے ساتھ لگتی ہے، ہندوستان ویسی صورتِ حال کا حامل تو نہیں ہے، لیکن حالیہ بی جے پی حکومت کاامریکی حلقوں کے قریب جانا سامراج کی دہائیوں پر مشتمل فرقہ پرستی اور انتہا پسندی جیسی سازشوں کے نتائج دکھائی دیتے ہیں۔ کانگرس نے ہند کا تأثر ایک ترقی پسند سماج کے طور پر کروایا تھا، جسے موجوہ حکومت نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کسانوں کی حالیہ احتجاجی تحریک نے تو اس سازش کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔ علاقائی طاقتوں کی کوشش ہے کہ بھارت کو علاقائی کلب کا حصہ بنایا جائے، جس میں روس، ہند اور چین شامل ہوں۔ اس کلب کے قیام سے ایشیا دنیا میں سب سے طاقت ور قوت بن کر اُبھرے گا۔ اس سے نہ صرف ایشیا مضبوط ہوگا، بلکہ پوری دنیا میں استعماری قوتوں کا بہترین تدارُک ہوسکے ہوگا۔ عالمی امن کو لاحق خطرات ماند پڑ جائیں گے۔ روسی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
جدید دنیا نے نئی ٹیکنالوجی دریافت کرلی ہے۔ دنیا میں ترقی کا سفر ٹیکنالوجی کے مرہونِ منت طے ہوتا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا کی کامیابی کی بنیادی وجہ سٹنگر میزائل کی دریافت اور اس کا استعمال تھا۔ آج محسوس ہو رہا ہے کہ سامراج قوموں کو تباہ کرنے کی حکمتِ عملی سے پیچھے ہٹ کر اپنے اصل دشمن اشتراکی نظام کی حکمتِ عملی پر غور کررہا ہے، جس کی واضح علامت رائٹر کی 27؍ مارچ 2021ء کی رپورٹ ہے، جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کا برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو فون کرکے یہ کہنا ہے کہ: ’’ہمیں بھی دنیا بھر میں جمہوری ریاستوں کی مدد کے لیے چین کی طرح کسی عالمی سڑک کی تعمیر پر غور و غوض کرنا چاہیے‘‘۔ اسے سرمایہ داری نظام کے مد ِمقابل اشتمالی معاشی نظام کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت کہا جاسکتا ہے۔
روس، چین، ہندوستان اور پاکستان پر مشتمل کلب امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی تعمیرِ نو کے مسئلے کو حل کرسکتا ہے۔ کیوں کہ جس جتھے نے نیٹو کے نام سے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک کو تباہ و برباد کیا تھا، جو کہ ایک تخریب کاری تھی، جسے انھوں نے اکیلے سرانجام نہیں دیا تھا، جب کہ تعمیر مشکل کام ہے، اسے کوئی ملک اکیلا نہیں کرسکتا ہے۔ جن وسائل اور افکار و نظریات کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی فراہمی بھی ایک مشکل کام ہے۔ چین او ر روس ایسے ممالک ہیں جو تعمیرِنو کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اداروں کی تشکیل کے کام سے بہ خوبی آگاہ ہیں، لہٰذ اس کلب کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ٹیگز
متعلقہ مضامین
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
پاکستان میں غلبۂ دین کے عصری تقاضے
ہم نے گزشتہ مہینے انھیں صفحات پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے تناظر میں دو اہم سوالوں کے جوابات کے ضمن میں دو انتہاؤں کا جائزہ لیاتھا کہ وہ کیوں کر غلط ہیں۔ آج…
حکمران اشرافیہ کی نا اہلی اور مہنگائی کا نیاگرداب!
پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے گزر رہا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا ک…