ہند وکش کے اونچے پہاڑوں میں گِھرا اَفغانستان، جو شمال میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے جا ملتا ہے، دشوار گزار علاقے، نیم ہموار زمین پر مشتمل ہے۔ یہاں مختلف قومیں اور قبائل آباد ہیں۔ CIA کی فیکٹ بک کے مطابق جولائی 2011ء میں اس کی کل آبادی 2 کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
2001ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے اُسامہ بن لادن کی حوالگی پر مجبور کرنے کے لیے افغانستان پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اسی سال مارچ میں طالبان نے مذہبی انتہا پسندی کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں ہزاروں سال پرانے بدھا کے مجسمے تباہ کردیے۔ 11؍ ستمبر 2001ء (نائن الیون) کو امریکا کے شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر مبینہ دہشت گردی کے ذریعے تباہ ہوگیا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے امریکا کے حوالے کریں۔ طالبان کے انکار کرنے پر امریکا نے 7؍ اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردیا۔ دسمبر 2001ء میں طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ 9؍ اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ 13؍ اور 14؍ مئی 2007ء کو افغانی اور امریکی افواج کے ساتھ پاکستانی فوج کی جھڑپیں شروع ہوگئیں، جس میں کئی امریکی اور پاکستانی فوجی مارے گئے۔ دسمبر 2009ء میں امریکی اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے ا مریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کو مرحلہ وار نکال لے گا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ امریکا نے یہ بات دہرائی۔
اب 29؍ فروری 2020ء کو امریکا اور طالبان کے مابین قطر کے شہر دوحہ میں ایک معاہدے کے مطابق امریکا نے افغانستان سے افواج کے مرحلہ وار انخلا کا اعلان کردیا۔ معاہدہ افغان حکومت کے بجائے طالبان کے ساتھ کیا گیا۔ امریکا نے کہا کہ وہ 14 ماہ کے اندر اندر اپنی اور اتحادیوں کی تمام افواج کو نکال لے گا۔ پہلے مرحلے میں امریکا اپنی 12 ہزار فوج کو کم کرکے 8600 کر دے گا۔ اس کے بعد بقیہ 5 فوجی اڈوں سے بھی امریکا اور اس کے اتحادی اپنی تمام افواج نکال لیں گے۔ مزید یہ کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر افغانستان پر عائد پابندیوں کو بھی 29؍ مئی 2020ء تک ختم کروا دے گا۔
معاہدے کے بعد طالبان کی طرف سے اس پر دستخط کرنے والے عبدالغنی ملا برادر سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اُن کی تعریف کی۔ اس موقع پر ملابرادر نے افغانستان کی ترقی کے لیے امریکا سے مدد مانگی، جسے پورا کرنے کا امریکی صدر نے وعدہ کیا۔ امریکا نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے اس کی معاشی مدد بھی کرے گا۔ بی بی سی کی یکم؍ مارچ 2020ء کی رپورٹ کے مطابق امن معاہدے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: ’’امریکی افواج افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کررہی تھیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کوئی اور اس کام کو سرانجام دے۔ یہ کام اب طالبان کریں گے یا افغانستان کے ارد گرد میں واقع ممالک۔‘‘ ٹرمپ نے مزید کہا کہ: ’’ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، سیکرٹری دفاع مارک ایسپر اور امریکی عوام جنھوں نے اس جنگ میں اپنا خون اور پیسہ صَرف کیا، کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘ صدر کا مزید کہنا تھا کہ: ’’یہ وقت اپنے لوگوں (افواج) کو گھر لانے کا ہے۔‘‘
فروری 2019ء میں اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اب تک 32,000 شہری اور 42,000 شدت پسند ہلاک ہوچکے ہیں۔ امریکی یونیورسٹی برائون کے ذیلی ادارے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق 58,000 سیکورٹی اہل کار اور 42,000 ہزار شدت پسند اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ جہاں تک پیسہ صَرف کرنے کی بات ہے، امریکی وزاتِ دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001ء سے مارچ 2019ء تک فوجی اخراجات 760 ارب امریکی ڈالر تھے۔ جب کہ مذکورہ یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے کے مطابق یہ اخراجات ایک ٹریلین امریکی ڈالر (یعنی ایک ہزار ارب امریکی ڈالر) سے بھی تجاوز کرچکے ہیں۔ اسی ادارے کاکہنا ہے کہ گزشتہ 11 برسوں میں ساڑھے 15 ارب امریکی ڈالر محض فراڈ اور خورد برد کی مد میں گم ہوچکے ہیں۔
بی بی سی کی 9؍ مارچ 2014ء کی یک طرفہ رپورٹ کے مطابق بہ ظاہر تو روسی اور امریکی فوجی مداخلتوں کا موازنہ نہیں بنتا، کیوںکہ روسی فوج سوویت اثر و رسوخ کو وسیع کرنے آئی تھی۔ جب کہ کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج ستمبر گیارہ (نائن الیون) کے حملوں کے دہشت گردی کے خاتمے اور جمہوریت کو تقویت دینے آئی تھی۔ اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’روس نے سالانہ 2 بلین ڈالر خرچ کیے، جب کہ امریکا ابھی تک 700 بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔‘‘ امریکا آج دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ اس نے سوشلسٹ نظریے کو شکست دینے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔ یہ بات غیرفطری ہے کہ گروہیت کی نمائندہ سوچ‘ اجتماعیت کے حامل نظریے سے شکست کھا جائے۔ امریکیوں میں کتنا بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف سوشلسٹ نظریے کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سد ِمآرِب کھڑی کررہے ہیں تودوسری طرف اسی نظریے کے جدید تصور کمیونزم کے فروغ کے لیے راستہ ہموار کررہے ہیں۔ چوںکہ آج سرمایہ دارانہ امریکی سوچ اشتمالیت کے نظریے کے مقابلے میں پس ماندہ اور گروہیت کی نمائندہ ہے، اس لیے اس کا شکست کھانا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حالات کا جبر امریکی صدر کو یہ کہنے پر مجبور کردیتا ہے کہ:’’یہ وقت اپنے لوگوں کو گھر واپس لانے کا ہے۔‘‘
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔