دنیا کے مانے جانے مالیاتی ادارے اور جریدے گزشہ ایک سال سے 2008ء کی طرز پر ایک بڑے مالیاتی بحران کی نوید سنا رہے تھے۔ اس کی وجہ عالمی معیشت پر کُل عالمی پیداوار کا تین گنا قرض ہے، جو 2470 کھرب ڈالر بنتا ہے۔ گویا ان سرمایہ داروں نے مفروضے کی بنیاد پر اصل پیداوار (جس کے تعین پر بھی سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں) کا تین گنا زیادہ قرض پیدا کردیا۔ چناںچہ اس سرمائے کی ریل پیل کو معانی پہنانے کے لیے ہر دس پندرہ سالوں میں عالمی معیشت کو نت نئے بحرانوں سے گزارا جاتا ہے۔ کہیں اسے ’’ایشین کرنسی بحران‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور کبھی اسے ’’سب پرائم مورگیج بحران‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے درمیان کبھی مڈل ایسٹ تیل کا بحران اور کبھی Y2K bug اور کبھی عراق امریکا جنگ، کبھی عرب سپرنگ، کبھی دہشت گردی کا نام دے کر دنیا کو بحرانی کیفیت سے نکلنے نہیں دیا جاتا۔ اس سے بھی کام نہ چلے تو طاقت ور میڈیا کا سہارا لے کر سارس، مرس، سوائین، ایبولا اور کرونا کو عالمی خطرہ قرار دے کر پوری دنیا کو ایک نئے چیلنج سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ کچھ بھی ہو، لیکن ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو سرمایہ دار اپنے حق میں استعمال کرلیتے ہیں۔
چناںچہ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد صرف امریکا نے 15 کھرب ڈالراپنے معاشی سسٹم میں ڈالے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ امریکی عوام کا یہ پیسہ بڑی بڑی کمپنیوں کو اس لیے دیا گیا، تاکہ وہ بند نہ ہو جائیں اور بہت بڑی تعداد میں امریکی بے روزگار نہ ہو جائیں، لیکن ہوا یہ کہ یہ پیسہ دوبارہ سٹاک ایکسچینج کے سٹے میں لگا اور ہر دو صورتوں میں سرمایہ کار کو فائدہ ہوا۔ یہی ماڈل یورپ میں اپنایا گیا۔ گزشتہ دس سالوں میں جن وجوہات کی وجہ سے یہ بحران بروئے کار آئے، وہی غلطیاں دہرائی جاچکی ہیں۔ چناںچہ یورپ اور امریکا میں حکومتی قرضوں کے علاوہ نجی شعبوں میں بے پناہ قرضے لیے جاچکے ہیں، جو صرف امریکا میں 2008ء کی سطح سے زیادہ ہیں۔ یہی وہ قرضے ہیں، جن کی وجہ سے پچھلا بحران آیا تھا، لیکن اب سب کو معلوم ہے کہ اگر تباہی آئی تو اس کا بوجھ پہلے کی طرح عوام پھر سے اٹھا لیں گے۔ گویا امدادی پیکیج کا پیسہ مالیاتی ڈھانچے کی بہتری اور دوبارہ ایسا بحران نہ آنے پائے، جیسے منصوبوں پر نہیں ڈالا گیا۔ اس پر طرّہ یہ کہ عوامی صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خرچ پہلے سے کم کردیا گیا، تاکہ ادا شدہ امدادی پیکج کی ادائیگی سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ اس حکمتِ عملی نے کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو ان مغربی ممالک میں اَور سنگین کردیا ہے۔
لیکن کرونا کے اس بحران نے عالمی مالیاتی اداروں اور حکومتوں کو ایک دفعہ پھر کھربوں ڈالر کے امدادی پیکج دینے کے حوالے سے موقع فراہم کردیا ہے، جس کی بدولت ڈوبتے ہوئے کاروبار ایک دفعہ پھر کھڑے ہو جائیں گے۔ امریکا اور یورپ مل کر اب تک 80کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کرچکے ہیں۔ لیکن اب ان حکومتوں پر دباؤ ہے کہ یہ امدادی پیکج شرائط کے ساتھ دیا جائے۔ اس دباؤ کے خلاف تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پہلے 2008ء میں امدادی پیکج اور اب 2020ء میں اس کے ساتھ کڑی شرائط، جن میں ملازمین کی نوکریوں کا بحال رہنا، ان کی صحت اور مہارت پر خرچ کا اضافہ اور اس رقم کا سٹاک ایکسچینج میں دوبارہ نہ لگانا اور کمپنیوں کے شراکت داروں کو سالانہ منافع کی ادائیگی میں تعطل وغیرہ دراصل سرمایہ داریت اور آزاد منڈیوں کا اختتام ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرونا کی آمد کے بعد اسے میڈیا کے ذریعے عفریت کا درجہ دینے کی وجہ یہی تھی، تا کہ اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو عوام کے ٹیکس کی مدد سے بچایا جاسکے۔ چناںچہ اکتوبر 2019ء میں برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق امریکی معیشت کساد بازاری کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی تجزیہ دسمبر2019ء میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق امریکی حکومت گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک دفعہ پھر قرضوں کا رُخ کررہی ہے، جو بہ ذاتِ خود تباہی کی سمت ایک قدم ہے۔ یہ وہ رُخ ہے، جو آج ہر ترقی پذیر معیشت بہ شمول پاکستان کا ہے۔ جس کا طویل مدتی انجام معاشی کساد بازاری ہی ہے۔
دوسری طرف چین کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے میں وہ سب سے آگے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے چین کے اقدامات مثالی تھے اور اب پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن یہ کہنا کہ چین نقصانات سے عاری رہا، غلط ہو گا۔ چین کو اب تک عالمی تجارت میں 7 کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دوسری جانب تیس سال میں پہلی دفعہ پیداوار میں 3 فی صد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے۔ یہ وبا ایسی ہے، جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک متأثر ہوئے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے اس میں کئی مواقع وجود پاچکے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو ٹیکس وصولی کی مد میں قریباً 40 کھرب روپے کا جھٹکا لگ سکتا ہے، جس کا مطلب دفاع، ترقی، صحت اور تعلیمی شعبوں پر کم سے کم اخراجات ہیں، لیکن اس مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے پاکستان کی حکومت نے بہتر حکمتِ عملی بنائی ہے، جس میں سب سے اہم شرح سود میں کمی اور امکان ہے کہ مستقبل میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہونے پر اس میں اَور کمی کردی جائے گی۔ اس کے ساتھ تعمیراتی شعبے میں انقلابی ٹیکس اصلاحات کا اجرا، جسے گزشتہ ایک سال سے آئی ایم ایف روک رہا تھا، اب اس ٹیکس میں وصولی اور روزگا رمیں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اندرونی پیداوار بڑھائے، تعمیراتی شعبے میں گھروں کی قلت کے خلا کو اس صورتِ حال میں پُر کرے اور تیل و گیس کی گرتی ہوئی قیمتیں جو اَب 26 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں، کو معیشت پر منتقل کرتے ہوئے اس موقع کا فائدہ اُٹھائے۔ جہاں آئی ایم ایف اور جی 20 ممالک نے پاکستان کو دیے گئے قرضوں پر نہ صرف ایک سال کی چھوٹ دے دی ہے، بلکہ مزید امداد اور قرضوں کی فراہمی کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ دوسری طرف یورپ اور امریکا کا یہ کہنا کہ اب اُن کے چین کے ساتھ تجارتی روابط پہلے جیسے نہیں ہوں گے، میں پاکستان کے لیے امید کی ایک کرن ہے، جہاں کئی شعبوں میں اب پاکستان کی برآمدی صنعت مغربی ممالک کے لیے اوّلین حیثیت اختیار کرسکتی ہے۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔