حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ (عہدِ حاضر کی عبقری اور تجدیدی شخصیت)
محمدعباس شاد
(مورخہ 22 مارچ 2015ءبروز اتوار کو ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی یاد میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس میں مدیر ماہنامہ ”رحیمیہ“ لاہور نے درجِ ذیل خیالات کا اظہار کیا۔)
مشکل حالات میں دعوتی کام
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس زمانے کی ایک جینئس اور تجدیدی شخصیت اور داعی کے تذکرے کے حوالے سے جمع ہوئے ہیں۔ تاکہ ہم ان کے نظریے،کام کے طریقہ کاراور مشکلات سے واقف ہوسکیں کہ نظریے کے فروغ میں وہ کون سی مشکلات تھیں، جو حضرتؒ نے اپنے سینے پر جھیلیں۔ کتنے درد تھے، جن کو اپنی جھولی میں سمیٹ کر وہ اپنے ساتھ لے گئے اور ہمارے لئے راستہ صاف کرگئے۔ آج وہ بات جو مَیں اور آپ کرتے ہیں اور لوگ ہمیں داد دیتے ہیں کہ کتنی عمدہ بات کہی ہے، لیکن ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب لوگ وہ بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس بات پر داد و تحسین کی بجائے فتوے لگتے تھے۔ زمین کا گھیرا تنگ ہوجاتا تھا۔ یہ ساری مشکلات حضرتؒ نے جھیلیں۔ حضرتؒ ان دردوں، مصیبتوں کو اپنی جھولی میں سمیٹ کر ان میں سے مسکراہٹوں ، خوشیوں کو چن کر آپ نوجوانوں کی جھولی میں ڈال گئے۔ اُن کی زندگی ایک ایسی کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے اوراق اتنے متنوع اور گوناگوں ہیں کہ ہم ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ حضرت اقدسؒ کی شخصیت کے چند منفرد پہلو ہیں، جن پر ہماری نظر ہونا بہت ضروری ہے۔ اُن پہلویوں کو زیربحث لائے بغیر اُن کی عبقریت (geniusness)، دعوتی اسلوب، جدوجہد اور کوششوں کے نتائج سے واقف ہونا بہت مشکل ہے۔
نئے رجحانات کا فروغ
سب سے پہلے تو حضرت اقدس رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کاوہ منفرد پہلوہے، جس کی سب عبقری اور منفرد شخصیات حامل ہوتی ہیں۔ وہ یہ کہ ایسی شخصیات سوسائٹی اور معاشرے میں نئے رجحانات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ وہ لوگوں کوایک نئے زاویے سے اپنے گردوپیش، معاشرے، اقدار اور مروّجہ نظام کو دیکھنے اورپرکھنے کی صلاحیت اور اپروچ دیتی ہیں۔ چوںکہ انسانوں کا یہ ایک کامن وصف ہے کہ وہ جس معاشرے، خاندان، اجتماعی ماحول اور نظام میں پیدا ہوتے ہیں، وہ اس معاشرے اور سوسائٹی کو اسی کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہ اس معاشرے کے فکر و خیال، سماجی نظریات، سوچ و فکر اور نظام کے جو طے شدہ پیمانے ہوتے ہیں، اسی کے چوکھٹے کے اندررہ کر سوچتے ہیں اور کوئی نئی بات جو اُن کی ڈگر کو تبدیل کردے، وہ اس کو اپنے حق میں سوہانِ روح سمجھ کر اس نئی آواز کے دشمن بن جاتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ کسی بھی عہد، ملک، معاشرے اورتہذیب کا انسان ہو، وہ اس رِیت اور روایت کا شکار رہا ہے،لیکن تاریخ اور زمانے کی گود ایسے لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہی، جو آکر طے شدہ چوکھٹوں کو توڑ دیتے ہیں اور روایتی اندازِفکر کی جو ایک خاص نہج مروّج ہوکر لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہوچکی ہوتی ہے، لوگوں کو اس سے باہر نکلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ایسے جینئس افراد ہوتے ہیں، جو لگے بندھے کسی بھی سوسائٹی کے چوکھٹوں میں سوچنے کے عادی نہیں ہوتے، بلکہ وہ اُن چوکھٹوں اور دائروں کو بریک کردیتے ہیں۔ وہ ایک نئی سوچ اور نیا فکر لے کر آتے ہیں اور اُن طے شدہ دائروں میں جینے اور سوچنے سے انکار کردیتے ہیں، بلکہ لوگوں کو بھی اس لگے بندھے پیٹرن سے ہٹ کر جو سچائی، روشنی اور ویژن موجود ہوتا ہے، اس کی طرف متوجہ کرکے ایک نئی سوچ اور نظامِ فکر کے ساتھ جینا سکھاتے ہیں۔ ان کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ زمانہ اور اس کے تقاضے بدل رہے ہیں۔ وقت کا دھارا کسی اور سمت بہنے کو تیار ہے۔ زمانہ آگے چلا گیا ہے، آپ پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ زمانے کی قدریں کروٹ لے رہی ہیں، آپ کروٹ لینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ زندگی زمانے کے ساتھ چلتی ہے۔ زندگی، زمانے اور وقت میں ایک گہرا رشتہ ہے۔ زندگی ہمیشہ اپنے عہد کے مظاہر کا سہارا لیتی ہے۔ ان سے تمھاری غفلت ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے لوگ تاریخ میں کبھی کبھی آتے اور تھوڑی تعداد میں آتے ہیں، لیکن آتے رہتے ہیں۔
ہمیں حضرت اقدسؒ کے کام کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھنا ہوگا کہ وہ عام روایت پسند انسان نہیں تھے۔ وہ لگے بندھے چوکھٹوں کے تحت سوچنے والے بھی نہ تھے۔ زمانے کو انھوں نے روایتی معاشرے کی عینک سے نہیں دیکھا، بلکہ فکر و شعور کی اس معراج پر پہنچ کر اس سوسائٹی کا جائزہ لیا اور پاکستانی قوم کو اس ملک کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، سیاست دانوں کے منفی طرزِ سیاست اور مذہبی طبقوں کی آلہ کاری اور مجرمانہ غفلت کے باعث آنے والے خوف ناک حالات سے آگاہ کیا۔ اس حوالے سے سب سے پہلی بات جو ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے، وہ یہ ہے کہ اس خطے کی جو فکری اور نظریاتی روایت تھی اس کو خاص سامراجی مقاصد کے تحت بدلا گیا۔
حضرت اقدس ؒ ؛ اسلاف کی روایات کے امین
حضرت اقدس رائے پوریؒ جب رائے پور سے یہاں تشریف لائے تو انھوں نے مشاہدہ کیا کہ یہاں جو نظریہ اور سوچ موجود تھی اور فکر و خیال کے جو پیمانے بنا لیے گئے تھے، ان کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جس پر عوام کی ذہنی آب یاری کرنے کے لئے ایک پورا میکانزم کھڑا کردیا گیا۔ ہمارا مذہب، ادب، علم، کلچر، تاریخ اور لٹریچر‘ ساری چیزیں ایک خاص طے شدہ مخصوص منصوبے کے تحت سامراجی اور طبقاتی مفادات کے سازشی منصوبہ بندی سے دو چار ہوچکی ہیں۔ تو ایسے میں حضرتؒ یہ دیکھ رہے تھے کہ مذہب، سیاست، معیشت کے اندر ایک خاص نظرےے کو پروان چڑھا دیا گیا ہے، اگر حضرتؒ چلتے ہوئے دھارے کا حصہ بن جاتے اور ایک پارٹی بنا کراقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو ان کی صلاحیت کی وجہ سے اس ملک کی سیاست اور قیادت پر یقینا کسی اور کاحق نہ ہوتا۔ لیکن چلتے ہوئے پانی کا رُخ بدلنا، محوِسفرقافلوں کو واپس لوٹنے کی دعوت دینا، کہ تمھاری منزل کہیں اَور ہے اور تم غلط راستے پرایک لمبی مسافت طے کرچکے ہو، کتنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے حضرتؒ کو یہ کام کرنا پڑا۔
حضرت اقدسؒ جن کا ایک خانقاہی اور مذہبی پس منظر ہے اور وہ مذہب کی اس روایت کے امین تھے، جسے انبیا ء صوفیاؒ اور خداترس لوگ انجام دیتے آئے تھے، جو انسان اور خدا کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لےے دنیا کے تمام مسائل کا حل عصری تقاضوں اور الٰہی تعلیمات کی روشنی میں دیتے آئے تھے، حضرتؒ نے اسی روایت کو نبھایا۔ مذہب تو انسانوں کے درمیان تمام فاصلے، تفریقیں مٹا کر، تمام جدائیوں کو ختم کرکے ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے۔ ان کے اندر محبت،اتحاد و اتفاق، اجتماعیت پیدا کرتا ہے، لیکن جہاں مذہب کے نام پر بٹوارے ہو رہے ہوں۔ دنیا وحدت کی طرف جا رہی تھی اور ہم تقسیم کے نظرئے کی بات کر رہے تھے۔ دنیا ادھر جا رہی تھی کہ انسانوں کو اکٹھا کرکے کسی اجتماعی نظامِ حیات کی طرف بڑھا جائے، ہم تقسیم کے دائرے اور لائنیں کھینچ رہے تھے۔ دنیا اپنی وحدتوں اور قومیت کے وجود کو بچانے کے لیے کوشاں تھی اور ایک اس خطے کی لیڈر شپ تھی کہ وہ اس پر دلائل ڈھونڈ رہی تھی کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ لوگ اتحاد و اتفاق پر دلائل دیتے تھے، ہم تفریق، تشدد پر دلیل و بُرہان لا رہے تھے۔ گویا قومیں جن نظریات کو طلاق دے رہی تھیں، ہم انھیں نظریات سے رشتے استوار کر رہے تھے۔
حضرت اقدس کی حکمت عملی کی جامعیت
ہم حضرتؒ کی مشکلات کو اس خطے کی تاریخ، مذہبی رویے اور سامراجی سیاست اور سازشوں کو جانے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ کیوںکہ آج لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ بہت سی جماعتیں اور پارٹیاں ہیں، جن کا کام بعد میں شروع ہوا تھا، لیکن اُن کا حجم زیادہ ہے۔ انھوں نے محنت کم کی، اُن کا وجود بڑا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ کسی کے کام کو اُس کے نظریے کی قدروقیمت پر پرکھا جاتا ہے۔ جس طرف پانی بہا جا رہا ہے، اُس طرف تیرنا بہت آسان ہے۔ آپ اگر کسی سے کہیں کہ اُلٹے رُخ تیرو، وہ مشکل ہوتا ہے۔ کوئی شخص کہیں جا رہا ہے، آپ اُدھر ہی اُسے جانے دیں اور اُسی راستے کے فضائل بیان کریں تو بہت آسان ہے۔ آپ جو بات لوگوں کے منہ میں ہے، وہی بات کہیں تو بہت سے لوگ آپ کی حمایت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ وہ کام بڑی تیزی سے پھیلتا ہے اور جماعتوں کے حجم اور وجود بھی بڑے ہونے لگتے ہیں۔ اگر کہیں لسانی عصبیت موجود ہے، آپ وہاں زبان کے نام پر کوئی تحریک کھڑی کردیں۔ جہاں فرقہ واریت کے نام سے دوکانیں اور مذہب کے نام پر کاروبار موجود ہوں، آپ بھی وہاں مذہب کے نام پر ایک نیا کاروبار کسی نئے فرقے کے نام پر بنا لیں تو آپ کو بھی مرنے مارنے کے لیے چند دیوانے مل جائیں گے۔ اور آپ کا وجود دن دگنی رات چوگنی ترقی کرکے بڑھنے لگے گا اور قومی اور عالمی سطح پر وہ قوتیں جن کا مفاد اس میں ہے کہ لوگوں کو مذہب، زبان، کلچر اور خطے کے نام پر لڑایا جائے، وہ بھی آپ کی معاون اور مددگار بن جائیں گی۔ تو اس کے خلاف بات کرنا، اس میں سے سچائی تلاش کرنا، اس میں حقیقت کی بات کرنا، یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
حضرت اقدسؒ نے ان تمام دائروں میں جو جو نقائص موجود تھے، ان پر مثبت انداز میں تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان شعبوں کا جو حقیقی اور اصل چہرہ تھا، وہ دکھایا۔ اور یقینا کسی سوسائٹی اور معاشرے میں موجود تصورات کو بدلنا ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ سوسائٹی میں لوگوں کا جو نظریہ موجود ہوتا ہے، اگر آپ اس پر ضرب لگائیں تو کوئی آپ کی بات کی تعریف نہیں کرے گا، بلکہ فوراً ردّ عمل آئے گا۔ لوگوں کے خیالات، سوچ اور نظریہ بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اور ان حالات میں کہ جب مذہب، سیاست اور انسانیت کے حوالے سے ایسے نظریات موجود ہوں، جو داعی کے دعوت کے بنیادی فریم ورک کا ہدف ہوں کہ یہاں سیاست، مذہب، تاریخ، کلچر، علم، ادب ہر شعبے میں ملاوٹ اور جعل سازی موجود ہے۔ سب پر تنقید اور درست نظریے کا ابلاغ یقینا ایک مشکل کام تھا۔ لوگ اپنے اپنے دائروں میں رہ کر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے تھے، لیکن حضرتؒ کی ایک آواز ایسی تھی کہ جہاں پر مخالفت کرتے ہوئے سارے دائروں کے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے۔ کیوں کہ حضرتؒ کی دعوت جامع، ہمہ گیر اور گہری تھی۔ جب حضرتؒ بات کرتے تھے تو جہاں جہاں کمی، جھول اور نقص موجود ہے، وہاں پر جا کرچوٹ لگتی تھی۔ تو اس دھندے میں شریک سارے طبقے اکٹھے ہوجاتے تھے۔
جب ہم اس صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں گے تو حضرتؒ کا کام اپنی تمام تر مشکلات کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کس ماحول میں کام کر رہے تھے۔ کہ آزادی کے بعد ملکی نظام کی نئی تعمیر ضروری ہوچکی ہے۔ اس کی نئی تشکیل ہونا لازمی ہے۔ اس حوالے سے ہر چیز پر جو ایک طے شدہ روایت چل رہی ہے، اسے اس کی مخالف سمت میں لے کے جانا ہے۔ مثال کے طور پر میں بات کو سمجھانے کے لئے تھوڑی سی بات کھول دوں کہ آپ کے ملک کا پڑوسی ملک کے ساتھ ایک مخصوص خطے پر علاقائی تنازع ہے، جو ایک خالصتاً جغرافیائی اور سیاسی مسئلہ ہے، لیکن ہماری ایک مخصوص کلاس نے اس پر باقاعدہ ایک بیانیہ اور جہاد کا narrative کھڑا کرلیا ہے۔ اب مجھے بتائیں کہ یہ علاقائی تنازع ہے اور اُسے مذہب کے نام پر ”جہاد“ کا ٹائٹل دے دیا گیا ہے۔ اب آپ یہاں مخالفت کریں تو کیسے کریں گے؟ تو ایسے میں راستہ بنانا کہ موجود بیانیے (narrative) کولوگ قبول ہی نہیں کرچکے، بلکہ گھول کے پی چکے ہیں۔ ان کے انگ انگ کے اندر یہ بات سرایت کر چکی ہے۔ وہاں پر اگر آپ یک دم ایک نئی بات کریں اور ہر چیز بدل جائے، یہ بہت مشکل ہے۔ وہاں پر تو مختلف زاویوں سے اپنی دعوتی صلاحیتوں کا اظہارکرنا ہی آپ کو اس مشکل صورتِ حال سے نبرد آزما ہونا سکھاتا ہے۔
حضرتؒ نے قوم کوان خیالات کی گہری کھائیوں اور اندھیری راتوں سے نکالنے کے لئے کس طرح اپنے شب و روز صرف کیے اور کتنی آپ کو محنت کرنی پڑی، اس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ حضرتؒ نے ایک عبقری اور جینئس ہونے کے سبب پاکستان کے سامراجی نظام میں لگے بندھے چوکھٹوں میں سوچنے سے انکار کردیا کہ اگر تم انسانیت کو تقسیم کرکے کہو کہ ”اسلام مضبوط ہوگیا۔“ تم خاص علاقائی جھگڑے کو اسلام کا عنوان دے کرکہہ دو کہ ”یہ جہاد ہے۔“ تم ایک خاص سرمایہ دارانہ نظام میں شریعت بل منظور کرواکر کہہ دو کہ ”اسلام نافذ ہوگیا۔“ اور تم سرمایہ داری کو اسلام کے کیپسول میں بند کرکے لوگوں کو کھلانے کی کوشش کرو اور کہو ”یہ اسلام ہے۔“ تو حضرتؒ نے اس صورتِ حال کو ردّ کردیا۔ انھوں نے ان جعلی اور دکھاوے کی کارروائیوں کو بے نقاب کیا۔
ہمہ جہت اور ہمہ گیر جدوجہد
حضرتؒ نے اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ان نظریات پر تنقید شروع کی۔ دین اسلام کا جو اصل چہرہ تھا، اس کو صاف کیا۔ سچے مذہب کا جو حقیقی کردار تھا، وہ لوگوں کے سامنے رکھا۔ اور مذہب کے اس خوف ناک اور مسخ شدہ چہرے کے نتیجے میں مذہب سے جو لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں بے زاری پائی جاتی تھی، حضرتؒ نے مذہب کے حقیقی کردار کو پیش کرکے نوجوانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ سیاست کے اندر آلہ کاری، مفادپرستی، خود غرضی اور لالچ کی جو نوعیت موجود تھی، اس کے حوالے سے انھوں نے دین اسلام کے صدرِ اوّل کی سیاست اور دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کی اُس سیاست کو یہاں پر موضوعِ بحث بنایا کہ جس کے نتیجے میں معاشرے ترقی کرتے رہے۔
حضرتؒ کا کام بڑا ہمہ جہتی اور ہمہ گیر تھا۔ ان کی دعوت کی بنیادی خوبی نوجوانوں کو تجزیاتی انداز فکر سے لیس کرنا تھا۔ آپ تاریخ سے واقف ہیں کہ پاکستان جب بنا تو یہاں کا ماحول بہت جذباتی تھا۔ یہاں پر نظریئے پر بات کرنا، کوئی تعمیری بات کرنابہت مشکل تھا۔ یہاں مجمعوں کی سیاست تھی، یا موچی دروازے، لیاقت باغ اور نشتر پارک کے بڑے بڑے میدانوں میں انسانوں کی منڈیاں لگا کر اسٹیجوں پر چند لوگ بیٹھ کر ان کے دماغوں کو کنٹرول کیا کرتے تھے، لیکن حضرتؒ نے اس سیاست، معیشت اور اس دور کی فاسد مذہبیت پر اُس وقت تنقید کی، جب یہاں پر تنقید کرنے اور اس کو برداشت کرنے کی سِرے سے کوئی روایت ہی نہیں تھی۔
یہ صرف حضرتؒ کی دعوت کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ انھوں نے تنقید کی کہ یہ سیاست دان اس بات کا قوم کو جواب دیں کہ جس نظام کی گاڑی کو یہ چلا رہے ہیں، اُس کی منزل کیا ہے؟ یہ مذہبی طبقہ جو قوم کو جنت کی خوش خبریاں سنا رہا ہے، انھوں نے دنیا کو جہنم کیوں بنا رکھاہے؟ دنیا ان سے جنت کیوں نہیں بنتی۔ جب کہ اسلام اور دین کا بنیادی نقطہ نظر ہی دین اور دنیا دونوں کی بھلائی ہے۔ آپ نے مثبت انداز میں تنقید کی روایت ڈالی۔ بات چیت اور مکالمے کا انداز دیا۔ جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں میں روایتی چیزوں سے بے زاری پیدا ہونا شروع ہوئی۔ حضرتؒ نے اس وقت سوچنے کی دعوت دی۔ کہ کہنے والے کی بات پر نہ جائو، سوچو کہ جو بات کہی جا رہی ہے، وہ سچی ہے یا جھوٹی ہے؟ وہ حالات سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی؟
آزادی و حریت کا پیغام
حضرتؒ کی جراٗت کی داد دیجئے کہ انھوں نے تنقید کا نشانہ فسادکے اس ذمہ دار طبقے کو بنایا، جو جبہ و دستار کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ الحمدللہ! وہ تقدس اور مقام و مرتبہ خود تاریخ نے حضرتؒ کی جھولی میں بھی ڈال رکھاتھا کہ خانقاہِ رائے پور ، دیوبند، سہارن پور اور مظاہر العلوم کی نسبت، مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری کا اعتماد، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ اور جمعیت علمائے ہند کی عقیدت کی وجہ سے آپ کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا، یہاں لوگ آپؒ کی اس تنقید کو آسانی سے ردّ نہیں کرسکتے تھے۔ کہنے والے جو بھی کہیں، لیکن آپ نے یہاں کا رُخ بدلا۔ یہاں کا دھارا بدلا۔ اس وقت نظام اور سسٹم کی بات کی، کہ جب ابھی تک لوگ اس بحث سے آشنا نہیں تھے۔ لوگ تجاویز پرباتیں کرتے تھے کہ فلاں پارٹی آجائے، فلاں سیاست دان آجائے، فلاں شخصیت آجائے، لیکن حضرتؒ نے اس وقت یہ بات یاد دلائی کہ جب تک نظام نہیں بدلتا، چہروں کے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نئی بوتلوں میں پرانی شراب دیتے رہو گے، قوم بھی اسی میں دھت رہے گی۔ اگر قوم کو نکالنا ہے تو شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نظرئے پر تبدیلی کی بات کرنی ہوگی۔ لیکن جیسے جیسے معاملہ آگے بڑھتا گیا، 70 ءکی دہائی تک، ایک بہت بڑا طبقہ اس بات کی طرف آگیا کہ یہاں پر انقلاب اور تبدیلی کی بات ہونی چاہئے، لیکن نئی پارٹی، نئے لوگ، نوجوانوں تک پہنچنا، نوجوانوں کو نظریہ دینا، یہاں کے نام نہاد سوشلسٹ انقلابی بوڑھے طوطے اور بوڑھے گھوڑے جو سامراجی تانگوں کے اندر جتے ہوئے تھے،یہ اس کام کے قابل نہ تھے انہوں نے ملک میں انقلاب اور سازش کو ہم معنی بنادیا۔ اس وقت نئی بنتی ہوئی پارٹیوں میں یہ لوگ دھڑا دھڑ شریک ہونے لگے۔ اوران کا خیال تھا کہ ان پارٹیوں پر قبضہ کرکے ہم یہاں پر انقلاب لے آئیں گے۔ لیکن بہت سی پارٹیاں تو بنائی ہی اسی لئے جاتی تھیں کہ انقلاب کے نام پر جو کچھ جذباتی لوگ اکٹھے ہوجائیں، انھیں نئی پارٹیوں کے پنجرے میں قید کرلیا جائے، لیکن ہمارے حضرتؒ اپنی اُسی جگہ پر کھڑے رہے، کہ جو بات انھوں نے پہلے دن کہی تھی کہ آزادی وحریت کے سامراج دشمن نظریے پرنوجوانوں کی تنظیم سازی اور ان کی قیادت میں دینی حوالے سے قومی و جمہوری انقلاب اس قوم کی نجات کا واحد راستہ ہے۔ حضرتؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے یہ بات باور کروائی کہ معاشرے کیصل طاقت نوجوان ہےں۔ حضرتؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی اس روایت کو زندہ کیا کہ جب تک جماعتوں میں نئے خون کو نہیں لایا جاتا، پُرانے لوگوں کاقیادتوں پر مسلط رہنا اور نئے آنے والے لوگوں کو راستہ نہ دینا ایسا ہی ہے، جیسے چلتا ہوا پانی کہیں ٹھہر جائے۔ اور ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر بدبو پیداہوجائے۔
یہاں پر لوگ زندگیاں گنواتے رہے، اور زندگی کے آخری کنارے پر لوگوں کو بتاتے تھے کہ ہم نے زندگی سے یہ سیکھا ہے، تم یہ نہ کرنا۔ اور حضرتؒ پیچھے کھڑے پہلے ہی بتاتے رہے کہ تم غلطی کیا کر رہے ہو۔ جیسے مولانا آزاد کہا کرتے تھے کہ لوگ بارش کو دیکھ کر بتاتے ہیں کہ بارش ہوئی ہے اور میں فضا سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں بارش ہونی ہے، یہ بصیرت اور یہ شعور ہونا، کہ حالات کس کروٹ بیٹھ رہے ہیں، حالات کا دھارا کس سمت سرک رہا ہے، اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ یہ حضرتؒ کا کمال تھا۔ 1977ءمیں تحریکِ نظامِ مصطفی چلی اور اسلام کے نام پر بڑے پر کشش نعرے لگے تو حضرت اقدسؒ نے اس وقت فرمایا کہ اسلام کے نام پر اس نظام مصطفی کی تحریک کے نتیجے میں ایک بدترین مارشل لا تو آسکتا ہے، اسلام نہیں آسکتا۔ اور تاریخ کا بدترین مارشل لا اس دھرتی نے اپنے سینے پر جس طرح سہا ہے، وہ بھی ہمارے ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔
زیادہ دور نہ جائیے،ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ 80ءکی دہائی میں جہاد کے نام پر بیسیوں جماعتیں وجود میں آگئیں اور اسے اسلام اور دفاع پاکستان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیاحالانکہ اس سے قبل پاکستان پڑوسی ملک کے ساتھ 65اور 70کی دو جنگیں لڑچکاتھا اور اس وقت تک کوئی پرائیویٹ عسکری تنظیم وجود میں نہ آئی تھی۔ تاریخ ہمیں یہ بات بتاتی ہے کہ یہ ساری جہادی تنظیمیں ایک خاص مقصد کے تحت بنوائی گئیں، جب یہ بنائی گئیں، اس وقت حضرتؒ نے کس شد و مد اور مردانگی کے ساتھ، کس دلیل و حجت اور استدلال کے ساتھ اپنی دعوت میں اس کے پس پشت سازش کو بے نقاب کیا وہ آپ کے سامنے ہے۔ اور اس پر فتوے بھی لگے، لیکن آج وہ لوگ جو جہاد کے نام پر پیسوں کی بوریاں وصول کرتے رہے، افغانستان کے جو قبائلی رہنما ہوتے تھے، وہ پیسے نوٹوں میں وصول نہیں کرتے تھے، بوریوں میں وصول کرتے تھے۔ کہ جی ٹھیک ہے حکمت یار کی حمایت کرتے ہیں، کتنا بوری مال ملے گا؟ پانچ بوری یا دس بوری؟ تو یہ بوریاں وصول کرنے والے جہاد کے نام پر آج کہاں کھڑے ہیں۔
جماعت حقہ کے حقیقی ترجمان
آج وہی جماعتیں لاکھوں ہزاروں انسانوں کو قتل کرانے کے بعد کہتی ہیں کہ جہاد ریاست کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پرائیویٹ مسلح جدوجہد کو حرام کہہ رہے ہیں گویا انہیں آج سچ بولنے کی توفیق ہوئی ہے ۔ تو حضرتؒ کی دعوت کی حقانیت اور بصیرت کو آج پاکستان کی تاریخ اور ادارے تسلیم کررہے ہیں۔ اور ایک بات یاد رکھیں، سچ کا ایک وقت ہوتا ہے۔ آپ اس کا وقت بدل دیں، سچ سچ نہیں رہتا۔ اس کی جگہ بدل دیں، سچ سچ نہیں رہتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے۔ آپ اس کی جگہ بدل دیں۔ بادشاہ کے ایوان سے باہر جاکر جنگل میں ستر دفعہ اس کلمے کو دہرائیں تو وہ کلمہ حق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس کی جگہ اور وقت تبدیل ہوگیا اسی طرح ان جہادیوں کا یہ سچ جھوٹ سے بھی بدتر ہے۔ تو حضرتؒ کی دعوت کا جو خاصہ تھا، وہ تھا سچ کے وقت پر سچ بولنا۔ دیر نہیں کرنا، لیٹ نہیں کرنا۔
حضرتؒ کا کمال یہ ہے کہ سچ کے وقت پر سچ بولا۔ جب جہا دکے نام پر فتوے بانٹے جا رہے تھے، بوریاں وصول کی جا رہی تھیں، حضرتؒ نے فرمایا کہ: ”یہ دو طاقتوں کی لڑائی ہے۔ سامراج اسلام کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے دشمنوں کو شکار کرنا چاہتا ہے۔“ تو فرمایا کہ: قوم اسلام کے نام پر اس کا شکار نہ ہو۔ حضرتؒ نے 1988ءکی ایک تقریر میں پیشین گوئی کی تھی کہ: ”ایک وقت آئے گا کہ اسی سامراج امریکا کے جوتے ان کے سروں پر ہوں گے، ان مولویوں اور جہادیوں کو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔“ آج حضرتؒ کے اس بیان کے تناظر میں آپ ساری صورتِ حال دیکھ لیں زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں ہے ۔حضرتؒ وقت پر سچ بول کر وقت کے سچے نظریے کی دعوت دے کر اپنا کردار، فکر و عمل مکمل کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوکر دنیا وآخرت میں سرخرو ہوچکے اور یہ امانت آپ کی جھولی میں،اور ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈال گئے۔ اب پاکستان کا مستقبل آپ کے سامنے اپنی جھولی پھیلائے کھڑا ہے، کہ اگر آپ حضرتؒ کے فکر و عمل کی بنیاد پرپاکستان کی تاریخ کی جھولی میں خیرات نہیں ڈالتے، تو یقین جانیے کہ ابھی تک اس قوم کے مقدر میں پتہ نہیں کتنے دُکھ لکھے ہیں۔ اس قوم کے دکھوں کا مداوا، حضرتؒ کی یہ جدوجہد اور اس پر آپ کا دعوتی اسلوب، آپ کی محنت اور آپ کا جو کام ہے، اس کو آگے بڑھانا، وقت کے تقاضوں کو سمجھنا، وقت کی نزاکتوں کو سمجھنا، اور یہاں بنائے گئے سامراجی چوکھٹوں اور دائروں کو توڑ کر،دیوار کے پیچھے کی سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا، جو روایت حضرتؒ نے ہمیں منتقل کی ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔ حضرتؒ کا قوم کے لیے سب سے اہم پیغام سیاست میں قومی سوچ، معیشت میں عدل ومساوات، مذہب میں رواداری اور سماجیات میں خدمت انسانیت کا نظریہ ہے، جو وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت اور توفیق دے۔ (آمین)
حوالہ: ماہنامہ مجلہ رحیمیہ لاہور ستمبر 2015ء
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں ڈاکٹر محمد ناصر عبدالعزیز ( ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے السعید بلاک کی افتتاحی نشست میں کئے گئے ایک بیا…
ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )
ہمارے مربی ومحسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ از: مولانا مفتی عبدالقدیر، چشتیاں حضرتِ اقدس ؒ سے ابتدائی تعارف: …
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے)
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے) ڈاکٹر عبدالرحمن رائو (مضمون نگار حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے چھوٹے بھائی راؤ رشیداحمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جنھ…
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ از: مولانا محمد مختار حسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے اپنی پوری زندگی نوجوانوں میں اپنے بزرگ…