دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ایک مشکل کام ہے۔ چناں چہ لڑائی کے میدان میں روایتی اور جدید ہائی ٹیک اسلحے کی سپلائی ایک مشکل، مہنگا اور پیچیدہ کام ہے۔ معاشی گراوٹ کے ان سالوں میں یہ جنگیں دراصل مغربی دنیا کے گلے کی ایک ہڈی بنتی چلی جارہی ہیں۔ خیال یہ کیا جاتا تھا کہ یوکرین کی جنگ چند ماہ میں ختم ہوجائے گی، لیکن اس کی طوالت یورپی ممالک کے بجٹ پر بوجھ بن چکی ہے۔ یہی حال امریکا کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی جانب سے امداد کا تقاضا بڑھتا جارہا ہے اور وہاں سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ امریکا اور یورپ کو روس سے مقابلے کے لیے کم از کم مزید دو سال تک اسلحے کی بلا تعطل سپلائی جاری رکھنی ہوگی، جب کہ سپلائی اور دفاعی معاونت کی موجودہ صورتِ حال اس تقاضے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
دوسری طرف امریکا میں انتخابات کے سال کا آغاز ہوچکا ہے، جس کے اختتام پر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشی اضمحلال اور گراوٹ کے پیشِ نظر ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں اس بات کا اعادہ کررہا ہے کہ وہ ان دونوں جنگوں کو منطقی انجام تک پہنچائے گا اور نیٹو کا بوجھ کم کرے گا۔ اس حوالے سے ’’امریکا سب سے پہلے‘‘ کا نعرہ عوام میں زور پکڑ رہا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ سال 2024ء کے دوران ان جنگوں کو تکمیلی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی، کیوں کہ ٹرمپ کی ناکامی کی صورت میں بھی نئے امریکی صدر پر ان غیر ضروری اخراجات میں کمی کا دباؤ ہوگا، جو بالآخر ان خطوں کے حوالے سے کسی متبادل حکمتِ عملی کا اجرا کرے گا، جو بہر حال فوجی نہیں ہوگی۔ ایسی کوئی بھی پالیسی پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتِ حال میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے، جس میں عالمی مالیاتی ادارے نسبتاً زیادہ سخت پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے اور پاکستان میں موجود دائمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے پر پہلے سے زیادہ زور دیں گے۔ ایسے میں عالمی کساد بازاری کے رُجحانات ہماری برآمدات پر مستقل دباؤ برقرار رکھیں گے اور ہماری بعد از الیکشن دھینگا مشتی اور دَھاندلی سے دُھندلائی ہوئی فضا ہمیں سر نہیں اٹھانے دے گی۔ کیوں کہ ان حالات میں کوئی ذی شعور وعقل‘ کم ازکم پاکستان کا رُخ اپنی مالی بربادی کے لیے نہیں کرے گا، خواہ وہ کوئی عالمی مالیاتی ادارہ ہو یا ملک۔ اور کوئی ایسا کرے گا بھی تو محدود وقتی اور اتنی ضرورت کا‘ جو اس کے پہلے سے لگائے ہوئے مال کو بچا سکے۔ عوامی توقعات کے مطابق حکومت سازی ہی ایک ایسا عمل ہے، جو پاکستان کو اس مشکل سے نکال سکتا ہے، لیکن اس نظام کے ہوتے ہوئے یہ پاکستان میں پہلے ہوا ہے، نہ کبھی ہوگا۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
کارپوریٹ فارمنگ کے ممکنہ اثرات
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادو…
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
یہ سب کون کرے گا؟
کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے …