2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں درپیش چیلنجز بھی زیرِبحث آتے رہتے ہیں۔ خصوصاً دوچیلنج یعنی مسئلۂ کشمیر اور افغانستان کے حالات وقفے وقفے سے اپنی مختلف نوعیتوں کے سبب زیرِبحث رہتے ہیں۔ کشمیر کا حالیہ انتخابی معرکہ تو حکمران جماعت سر کرچکی ہے۔ یہ انتخاب بھی ہماری سیاسی روایت کے عین مطابق تھے۔ ساری سیاسی پارٹیوں نے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو الزامات دیے۔ اور دُشنام طرازی کے ساتھ ساتھ عوام کو سبز باغ دکھا کر اپنا اپنا حصہ وصول کرلیا ہے۔ اب ممبران کو ان کی مجوزہ مراعات ملتی رہیں گی اور ان کا راوی حسب روایت چَین لکھتا رہے گا۔
لیکن ایک دوسرا چیلنج جو پڑوسی ملک افغانستان سے امریکی فوجی اتحاد کے انخلا کے بعد سامنے آرہا ہے، اس سے ہوش مندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب کی بار یہ چیلنج ایک نئے زاویے سے سامنے آرہا ہے۔ شکست خوردہ استعمار بدلتی ہوئی جیوپالیٹکس میں پسپائی سے دوچار ہوتا ہوا اپنے لیے کسی نئی پوزیشن کی تلاش میں ہے۔ ایک طرف تو وہ دوحہ (قطر) مذاکرات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے آپ کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ادھر افغانستان میں موجود اپنی کٹھ پتلی حکومت کی دامے، درمے، سخنے مدد بھی پوری طرح جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے اندر گزشتہ دو دہائیوں سے جہادی بیانئے سے پسپا ہوتے ہوئے مذہبی طبقے افغانستان میں دوبارہ طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو دیکھ کر اپنے زنگ آلود بیانیے کو دوبارہ پالش کرنے لگے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بعض ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ (تزویراتی گہرائی) کے پرانے کھلاڑی ان مذہبی قوتوں کی پیٹھ ٹھونک کر ممولے کو شاہین سے لڑانے کے درپے نظر آرہے ہیں۔
اب اس ساری صورتِ حال میں ان تینوں کرداروں یعنی امریکا، پاکستان میں بیٹھے ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کے ماسٹر مائنڈ اور مذہبی ’’جہادی‘‘ جماعتوں کا تحلیل و تجزیہ ضروری ہے، تاکہ ہم اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو قومی تقاضوں کے تناظر میں نبھا سکیں۔
امریکا بہ ظاہرافغانستان کو چھوڑ تو رہا ہے، لیکن وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن ہو۔ وہ یہاں موجودمختلف قبائلیوں کی پیٹھ ٹھونکتا رہے گا، تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے۔ وہ اپنے شطرنج کے مہرے کبھی بھی مکمل طور پر ضائع نہیں ہونے دیتا۔ وہ اپنے مخالف ہوجانے والے پرانے اتحادیوں کو بھی مکمل طور پر ختم نہیں کرتا۔ ہاں! البتہ ان کے پَر ضرور کاٹتا ہے اور آنے والے وقت میں ان کے کردار کی گنجائش بھی نکال لی جاتی ہے۔ انتشار کی قوتیں ہمیشہ امریکا کے پے رول پر رہی ہیں۔ انتشار کی قوتوں کو باقی رکھنا اور پھر انھیں استعمال کرنا امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکا جہاں کہیں بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ امن قائم کرنے کے نام پر گیا ہے، وہاں کبھی امن نہیں ہوا۔ امریکا ہمیشہ ان علاقوں میں بداَمنی کی جلتی آگ پر تیل چھڑک کر وہاں سے واپس ہوتا ہے۔ انارکی کی یہ صورتِ حال آپ کو عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں یکساں طور پر نظر آئے گی۔ یہ دراصل امریکا کی ظالمانہ سفاکی کی میراث ہے، جو وہ دنیا کو بانٹتا ہے،لیکن اب امریکا کے لیے افغانستان میں یہ کھیل کھیلنا اتنا آسان نہیں رہا۔ کیوں کہ اب علاقے کی قوتوں کی بیداری اور بین الاقوامی کردار ادا کرنے پر ان کی آمادگی امریکا کے لیے ایک بھاری پتھر ثابت ہوگا۔
ایک دور میں عالمی سطح کی سرد جنگ میں ہمارے قومی اداروں نے اپنی شرکت کا جواز ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کو بنایا تھا، لیکن وقت کے دھارے نے ان اداروں کو نہ صرف سوچنے پر آمادہ کیا، بلکہ اپنی پوزیشن بدلنے پر بھی مجبور کیا اور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان اداروں کو اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا پڑا۔ چناں چہ پاکستان کے اعلیٰ فوجی عہدے دار نے 2018ء میں جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس ساری صورتِ حال کو واضح کردیا تھا۔ اب بھی حکومت اور اداروں کی طرف سے واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی بگڑتی صورتِ حال کا اثر کسی صورت میں بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دے گا، لیکن ایک مخصوص طبقہ جو ہمیشہ اپنے ہاں سے زیادہ دوسرے ملکوں میں اسلامی حکومتوں اور خلافتوں کا خواہاں رہا ہے، وہ آج بھی افغانستان میں طالبان کے قبضوں پر فخر کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ایک مخصوص لابی پاکستان میں تو جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتی ہے، لیکن افغانستان میں ہمیشہ شدت پسندوں کو سپورٹ کرتی آئی ہے۔ یہ نام نہاد جمہوریت پسند آج بھی سٹیج پر کھڑے ہو کر افغانستان میں شدت پسندوں کے حملوں کو ’’فتوحات‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کا وہ ’’جہادی وِنگ‘‘ ہے، جو محض قوم کے جذبات سے کھیلتا ہے، ورنہ انھیں مذہب اور اسلام کی حکومت سے کوئی غرض نہیں۔ یہ وہی ذہنیت ہے، جنھوں نے قیامِ پاکستان کے وقت بھی پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔ کا نعرہ لگایا تھا، جو صرف مسلمانوں کا جذباتی استحصال تھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی یہ اسی ڈگر پر قائم رہے، لیکن اداروں اور پارلیمنٹ میں اسلام نافذ کرنے سے انھیں کبھی کسی نے نہیں روکا۔ لیکن نہ جانے یہ کیوں اپنے ہاں سے زیادہ کشمیر اور افغانستان میں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں کوشاں رہے ہیں۔
اس مسئلے کا تیسرا فریق ہمارے ملک کی وہ مذہبی جماعتیں ہیں، جو ماضی میں افغانستان کے معاملات میں کافی اثر و رُسوخ رکھتی تھیں، لیکن ان کایہ اثر و رُسوخ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کی آشیرباد سے تھا، ورنہ ان کا کردار اس میں ایک آلۂ کار قوت سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے مذہبی جماعتوں کے اس اثر و رُسوخ کو ختم کردیا گیا تھا، جس پر یہ مقامی اسٹیبلشمنٹ سے نالاں ہو کر ایسے شکوے شکایات بھی کرتی رہی ہیں کہ ہمیں افغانستان میں مغرب کی خواہش پر روس کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اب امریکا نے خطے میں نئے داؤ پیچ کھیلنے شروع کیے ہیں تو یہ پھر اس کھیل میں حصہ دار بننے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اب پاکستان اور افغانستان کے عوام ان جماعتوں کے کردار کو جان چکے ہیں اور وہ ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ (مدیر)
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
فرسودہ ملکی نظام کی فریب کاری اور قومی خود داری
اس سال اپریل سے ستمبر تک کے دورانیے میں اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے واقعات اور اقتدار کی چھینا جھپٹی نے ریاست کو بالادست طبقوں کے ہاتھ میں لعبِ صِبیان (بچوں کا کھیل) ا…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
روسی اور چینی قیادت کا کڑا اِمتحان!
( مسئلۂ یوکرین) شیطان اپنی شیطنت سے کبھی باز نہیں آتا۔ اس کا علاج صرف اسے مغلوب کر کے رکھنے میں ہوتاہے۔ جنگ اگرچہ مسئلے کا حل تو نہیں ہوتی، لیکن حل تک پہنچنے کی ابتدا…
مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور بیسویں صدی کی مسلم فکر
اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی ب…