یورپی نوآبادیاتی نظام کو ختم ہوئے نصف صدی سے زائد ہوچلے، لیکن ہم گزشتہ ساٹھ ستر سالوں کے بد ترین تجربے اور اِبتلاؤں کا سامنا کرنے کے باوجود یہ نہیں سمجھ سکے کہ آزادی کہتے کسے ہیں؟ ہمیں نام نہاد آزادی تو مل چکی ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم اپنے سیاسی اور خصوصاً معاشی فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں ہم سے بازو مروڑ کر طے کروائی جاتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہمارے سالانہ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر عاقل اور بالغ انسان واقف ہے، لیکن حیرت ہے کہ جب افغانستان میں طالبان کی صورت میں سیاسی تبدیلی رونما ہوئی تو ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین اسے ’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ سے تعبیر کرنے لگے۔ اس واقعے کو ابھی ایک ماہ کا عرصہ گزرا ہے کہ سب کو آٹے دال کے بھاؤ کی پڑ گئی ہے۔ افغانستان میں سیاسی تشکیل کیا ہوتی ہے؟ اس سے بڑھ کر ملک کیسے چلے گا؟ کا سوال سب کی زبان پر ہے۔
عالمی امدادی تنظیموں کی مدد کے بغیر طالبان حکومت صرف ایک ماہ تک ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔ اس کے بعد قریباً ڈیڑھ کروڑ نفوس پر بدترین قحط سالی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں منعقد ہونے والی کانفرنس برائے امدادی فنڈ میں دیگر ممبر ممالک نے 1.1 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے اور اس رقم کو شفافیت کے ساتھ خرچ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لیکن ہم پاکستانیوں کو تو اس بات کا وسیع تجربہ ہے کہ یہ امداد محض امداد نہیں ہوگی۔ اس کی شفافیت کی آڑ میں عوامی بہبود کے کلیدی منصوبوں پر عالمی ادارے اور این جی اوز براجمان ہو جائیں گی اور مغربی عوام کے ٹیکس کا پیسہ بڑے مربوط اور منظم طریقے سے ان ممالک کے نمائندہ سرمایہ داروں کے خزانوں میں منتقل ہوتا رہے گا اور طالبان حکومت دیگر حکومتوں کی طرح کرپشن اور نااہلی کا شربت دن رات پیتی رہے گی۔
امریکا نے طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے فوراً بعد افغانستان کے 9.5 ارب ڈالر کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کردیے ہیں۔ یہ اثاثے افغانستان کی ایک سے ڈیڑھ سال تک کی درآمدات کے لیے کافی تھے، لیکن اس وقت طالبان کی رسائی میں محض 52.2 کروڑ ڈالر ہیں، جو کسی نہ کسی حالت میں افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ اگر یہ طالبان کے استعمال میں آجائیں تو ایک سے دو ماہ کی درآمدات کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ ملک پر اس وقت 2.2 ارب ڈالر کا قرض ہے۔ اس میں تجارتی خسارہ ملا لیں تو یہ 7 ارب ڈالر پر جا پہنچتا ہے۔ اور یہ سب ادا کرنا کم ازکم طالبان کی ریاست کے لیے ناممکن ہے۔ اب اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ سیاست اور معیشت کے اس کھیل میں آزادی تو ختم ہو ہی جائے گی، رہی بات ملک چلانے کی، جیسے پاکستان چل رہا ہے، ویسے ہی افغانستان چلے گا۔ کیوں کہ باگیں سامراجی ممالک کی مکمل گرفت میں آچکی ہیں۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
افغانستان اور پاکستان کا معاشی مستقبل
افغانستان‘ تاریخ کے اَن مِٹ نقوش کا حامل خطہ ہے، جو صدیوں پرانے طاقت ور خاندانوں اور ان کی بادشاہتوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ بدیسی طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بھی رہا ہے۔ اس …
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
جنگی بلاکوں کی ذہنیت‘ کلونیل عہد کا تسلسل ہے
ہمارے گرد و پیش کی دنیا‘ نِت نئے حادثات و واقعات کی زد میں رہتی ہے۔ ہم مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ بہ تازہ صورتِ حال کو ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کی دُنیا …