عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ: خَیْرُکُمْ مَنْ یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَ یُؤْمَنُ شَرُّہٗ، وَشَرُّکُمْ مَنْ لَّا یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَلَا یُؤْمَنُ شَرُّہٗ۔ (الجامع للتّرمذی، حدیث 2263)
(سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں بہتر شخص وہ ہے، جس سے خیر کی اُمید رکھی جائے اور جس کے شر سے بے خوف رہا جائے اور تم میں سے بُرا شخص وہ ہے، جس سے خیر و بھلائی کی کوئی امید نہ رکھی جائے اور جس کے شر سے بے خوف نہ رہا جائے‘‘۔)
اس حدیث مبارک میں نبیﷺ نے ایک ایسے معتبر شخص کا تعارف کروایا ہے کہ جس کے اخلاق بلند ہوں اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہے۔ تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں لوگوں کو یقین ہوجائے کہ اس کا ہر قول و عمل انسانوں کی بھلائی، ان کی عزت و آبرو، جان و مال اور انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اور لوگوں کا کسی سے خیر کی اُمید قائم ہوجانااور اس کے شر سے بچنے کا یقین کر لینا‘ اس کے بہترین انسان ہونے کی دلیل ہے۔ ایسا شخص خود بھی قلبی اور ذہنی لحاظ سے پُرسکون رہتا ہے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اچھی مثال بنتا ہے۔
عمدہ اخلاق ایسا اعلیٰ انسانی وصف ہے جو اس کو انسانوں میں معتبر کردیتا ہے، بداَخلاق لوگوں کو اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے میں غنیمت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں، وہ اپنے کردار و عمل سے اپنے اردگرد لوگوں کو ایک اچھے انسان کی پہچان کا خاموش پیغام دیتے ہیں۔
نبیﷺ کا عمدہ خُلق ہی آپؐ کو تمام انسانوں میں معزز بناکر آپؐ کو اللہ کی طرف سے پُرشکوہ لقب رحمۃ لّلعالمین کا مستحق قرار دِلواتا ہے۔ قرآن حکیم نے آپؐ کے کردار و عمل کی جو سب سے بڑی سند دی وہ آپؐ کے خلق کا بہت بلند ہونا ہے۔ (سورۃ القلم، 4) اسی بنا پر دوست دشمن سبھی آپؐ کے حسن خلق سے متأثر تھے۔ احادیثِ مبارکہ میں شرپسند قوتوں یا مردم آزار لوگوں کے بارے میں ناپسندیدگی کے اِظہار اور مختلف تنبیہات ایک درست کرداروعمل کی راہ متعین کرتی ہیں۔
مادہ پرست نظام کے غلبے کی وَجہ سے دوسروں کو تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے کا مرض اِنفرادی اور اجتماعی طور پر رواج پا چکا ہے۔ ایسے میں ضرورت یہ ہے کہ معاشرے میں باصلاحیت، بااخلاق اور اچھے رجحانات رکھنے والے لوگوں کی اجتماعیت پیدا کی جائے۔ ان کی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے معاشرے میں اس سوچ کو عام کیا جائے کہ پورے معاشرے میں ایسے اخلاق کو غالب آنا چاہیے۔ اور وہ ایک عوامی زبان بن کر قوم کی حالت کو بدل دیں۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…