عَنْ اَبِي ہُرَیْرَۃَؓ، عَنِ النَّبِيﷺ: ’’اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: یَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِی اَمْلأ صَدْرَکَ غِنی، وَاَسُدُّ فَقْرَکَ، وَ اِنْ لَمْ تَفْعَلْ مَلَأتُ صَدْرَکَ شُغْلاً وَلَمْ اَسُدَّ فَقْرَکَ‘‘۔(مسند احمد: 5378)
(حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابنِ آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا۔ مَیں تیرے سینے کو مال داری سے بھر دوں گا۔ اور تیری محتاجگی کو سیدھا کردوں گا۔اگر تو نے اس طرح نہ کیا تو مَیں تیرے سینے کو مشغولیات سے بھر دوں گا۔ اور تیری محتاجگی کو دور نہیں کروں گا ‘‘۔)
انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبودیت ہے اور عبودیت کا معنی ہے کہ انسان اپنے فکروخیال، اپنی اِنفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں اس راہ پر چلنا شروع کرے جو اِسے پرودگارِ عالم نے بتلائی ہے۔ خود کو شریعت اور عقل سلیم کے تابع کرلے۔ انسان جب اپنے فکروعمل کو اس راہ پر ڈال دیتا ہے تو عبودیت کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔
زیرِنظر حدیثِ قدسی میں حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جب انسان اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کرکے عبودیت کی راہ پر آجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر انعام فرماتے ہیں۔
انعاماتِ الٰہی کی دو نوعیتیں ہیں: پہلی یہ کہ اللہ اپنی طرف سے ہدایت اور رحمت سے یوں نوازتا ہے کہ انسان کا قلب گناہوں کی آلودگیوں، گردوپیش کے بُرے اَثرات اور شیطانی اَثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ بُرے خیالات ختم ہوکر اچھے خیالات جنم لینے لگتے ہیں۔ دل اللہ سے جڑ جاتا ہے۔ اس پر اللہ کی صفات کا رنگ چڑھ جاتا ہے، جس سے اس کے قلب کو سکون، اطمینان، راحت اور یقین کی کیفیت نصیب ہوجاتی ہے۔ یہ وہ دولت ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے انبیائے کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرامؒ اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔
دوسرا انعام جو اللہ کی طرف سے انسان کو نصیب ہوتا ہے وہ غنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَیں تیرے دل کو غنی کردوں گا۔ اس کا ثمر یہ ہوگاکہ دُنیوی ضرورتیں پوری ہوں گی۔ اس کے وسائل، اسباب، ان کے حصول کا فہم اور ہمت اللہ تعالیٰ ارزاں فرمائیں گے۔ انسان کی دُنیوی ضروریات اور حاجات آسانی سے پوری ہوجائیں گی، جس سے اس کی تنگ دستی اور بھوک ختم ہوگی، دل مستغنی ہوجائے گا۔ اہم بات یہ کہ دنیا میں انہماک کے بجائے اسے وہ عقلِ سلیم ملے گی، جو اِسے اللہ سے غافل نہ ہونے دے گی۔ جس سے اس کو ظاہری و باطنی اطمینان، سکون اور خوشی نصیب ہوگی۔ یہی انسانی زندگی میں بیش قیمت چیز ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ ’’الغِنیٰ غنی النّفس‘‘ (حقیقی مال داری نفس کا مستغنی ہونا ہے)۔ اگر انسان عبودیتِ الٰہی سے غافل رہا تو پھر مذکورہ نعمتوں سے بھی محروم رہے گا۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…