عمومی رُجحان ہے کہ آئی ایم ایف بہادر کی بخشش کے بعد پاکستان کو گویا ایک نئی زندگی مل جائے گی، دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے اور امیر ملک ہمیں پہلی سی چاہت اور محبت سے پیش آئیں گے اور ڈالروں کی ریل پیل ہو جائے گی۔یہ بات عمومی طور پر ہم سب اپنے پچھلے تجربات کی روشنی میں کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہوتا یوں تھا کہ جب بھی آئی ایم ایف سے کوئی قسط ادا کردی جاتی تھی، اس کے بعد حکومت اور مقامی کاروبار ایک ہی انداز میں ردِعمل دکھاتے چلے آئے ہیں۔ چناںچہ روپے کی قدر مستحکم ہوجاتی تھی، زرِ مبادلہ میں ٹھہراؤ آجاتا تھا، مقامی کاروبار میں تیزی کا رُجحان ریکارڈ کیا جاتا تھا اور سب سے بڑھ کر دنیا اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی تھی، لیکن عاقبت نااندیشی ایک ایسا روگ ہے، جس میں غالباً ہمارا پہلا نمبر ہے۔ اس وقت دہائیوں کی نااہلی اور غیرسنجیدگی بالآخر ہمیں تباہی کے بہت قریب لے آئی ہے۔
بجٹ 2022-23ء دستاویز کی روشنی میں ملک پر قرضوں کے بوجھ کا جائزہ اگست 2022ء کے کالم میں واضح کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر کُل 40 کھرب روپے کا سود اَدا کرنا تھا۔ اس تناظر میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2022ء تک صرف مقامی قرض پر 27 کھرب روپے کا سود اَدا کیا جاچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی رُو سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیشِ نظر شرح سود 17 فی صد کی جاچکی ہے اور امکان ہے اسے جلد ہی20 فی صد تک پہنچا دیا جائے گا۔ یوں قوی امکان ہے کہ سود کی ادائیگی طے شدہ ہدف سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔
اس کی بڑی وجہ پچھلے سال کے مقابلے میں دسمبر 2022ء تک حکومتِ پاکستان نے مقامی قرض کی مد میں 66 کھرب کا اضافہ کیا اور اسے 330 کھرب تک پہنچا دیا۔ اور یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے۔ جب تک آپ یہ مضمون پڑھیں گے، مقامی قرض 360 کھرب تک پہنچ چکا ہوگا۔ اور شرح سود میں ایک فی صد اضافہ جون 2023ء تک پاکستانیوں کو ماہانہ 30 ارب روپے میں پڑے گا۔ اس لیے امکان ہے کہ صرف مقامی قرضوں پر سود ہی ہمارے بجٹ کو کھا جانے کے لیے کافی ہوگا اور وہ بھی اس وقت، جب ٹیکس وصولی ہدف سے مستقل طور پر کم ہوتی جا رہی ہے۔
عام طور پر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ مقامی قرض تو گھر کی کھیتی ہے، اس کے اثر کو اضافی ٹیکس اور مزید قرضوں سے کم کیا جاسکے گا، لیکن آخر کب تک؟ ٹیکس تو بہرحال لوگوں سے ہی لینا ہے اور اضافی قرض بھی دراصل چھ کروڑ کھاتہ داروں کا ہی سرمایہ ہے، جس میں سے یہ قرض لیا جائے گا۔ آج بھی جب ہمارے معاشی ماہرایسی بات کرتے ہیں توگمان ہوتا ہے کہ ’ابھی عشق کے امتحاں اَور بھی ہیں‘۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…
کارپوریٹ فارمنگ کے ممکنہ اثرات
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادو…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…