آمد ِرسولؐ  ؛  اظہارِ محبت کے تقاضے

مولانا ابو الکلام آزاد
مولانا ابو الکلام آزاد
اکتوبر 17, 2021 - اہم مضامین
آمد ِرسولؐ  ؛  اظہارِ محبت کے تقاضے

عزیزانِ ملت! ماہِ ربیع الاوّل کا ورود تمھارے لیے جشن و مسرت کا ایک پیغامِ عام ہوتا ہے۔ کیوںکہ تم کو یاد آجاتا ہے کہ اسی مہینے کے ابتدائی ہفتوں میں خدا کی رحمت ِ عامہ کا دنیا میں ظہور اور اسلام کے داعی برحق کی پیدائش سے دنیا کی دائمی غمگینیاں اور سرگشتیاں ختم کی گئیں۔ تم خوشیوں اور مسرتوں کے ولولوں سے معمور ہوجاتے ہو۔ تمھارے اندر خدا کے رسولِ برحقؐ کی محبت و شیفتگی ایک بے خودانہ جوش و محویّت پیدا کردیتی ہے۔ تم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اسی کی یاد میں، اسی کے تذکرے میں اور اسی کی محبت کی لذت و سرور میں بسر کرنا چاہتے ہو! تم اس کے ذکر و فکر کی مجلسیں منعقد کرتے ہو۔ ان کی آرائش و زینت میں اپنی محنت و مشقت کی کمائی بے دریغ لٹاتے ہو خوشبو دار اور تروتازہ پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو۔ کافوری شمعوں کے خوب صورت فانوس اور برقی روشنی کے کنول بکثرت روشن کرتے ہو۔ عطر و گلاب کی مہک اور اگر کی بتیوں کا بخور جب ایوانِ مجلس کو اچھی طرح معطر کردیتا ہے تو اس وقت مدح و ثنا کے زمزموں اور درود و سلام کے مقدس ترانوں کے اندر اپنے محبوب و مطلوبِ مقدس کی یاد میں پناہ ڈھونڈتے ہو اور بسا اوقات تمھاری آنکھوں کے آنسو اور تمھارے پُر محبوب دلوں کی آہیں‘ اس کے اسمِ مبارک سے والہانہ عشق کرتیں اور اس کے عشق سے حیاتِ روحانی حاصل کرتی ہیں۔ 
پس کیا مبارک ہیں وہ دل‘ جنھوں نے اپنے عشق و شیفتگی کے لیے رب السماوات و الارض کے محبوؐب کو چنا! اور کیا پاک و مطہر ہیں وہ زبانیں، جو سید المرسلین و رحمتہ للعالمین کی مدح و ثنا میں زمزمہ سنج ہوئیں۔ انھوں نے اپنے عشق و شیفتگی کے لیے اس کی محبوبیت کو دیکھا۔ جس کو خود خدا نے اپنی چاہتوں اور محبتوں سے ممتاز کیا اور ان کی زبانوں میں اس کی مدح و ثنا میں خود خدا کی زبان کے ملائکہ اور قدوسیوں کی زبان اور کائناتِ ارضی کی تمام پاک روحوں اور سعید ہستیوں کی زبان ان کی شریک و ہم نوا ہے۔ 
  (بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔) (56:33) بلاشبہ محبت ِنبویؐ اور عشقِ محمدیؐ کے یہ مخلصانہ ذوق و شوق تمھاری زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے اور تم اپنے ان پاک جذبات کی جتنی بھی حفاظت کرو، کم ہے۔ تمھارا یہ عشقِ الٰہی ہے۔ تمھاری یہ محبت ِربانی ہے۔ تمھاری یہ شیفتگی انسانی سعادت اور راست بازی کا سرچشمہ ہے۔ تم اس وجودِ مقدس و مطہر کی محبت رکھتے ہو، جس کو تمام کائناتِ انسانی میں سے تمھارے خدا نے ہر طرح کی محمودیتوں اور ہر قسم کی محبوبیتوں کے لیے چن لیا اور محبوبیت ِعالم کا خلعت ِاعلیٰ صرف اسی کے وجودِ اقدس پر راست آیا۔ کرۂ ارض کی سطح پر انسان کے لیے بڑی سے بڑی بات جو لکھی جاسکتی ہے، زیادہ سے زیادہ جو عشق کیا جاسکتا ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ مدح و ثنا جو کی جاسکتی ہے، غرض کہ انسان کی زبان انسان کے لیے جو کچھ کہہ سکتی ہے اور کرسکتی ہے، وہ سب کا سب صرف ایک انسانِ کامل و اکمل کے لیے ہے اور اس کا مستحق اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔       لیکن جب کہ تم اس ماہِ مبارک میں یہ سب کچھ کرتے ہو اور اس ماہ کے واقعۂ ولادت کی یاد میں خوشیاں مناتے ہو تو اس کی مسرتوں کے اندر تمھیں کبھی اپنا وہ ماتم بھی یاد آتا ہے، جس کے بغیر اب تمھاری خوشی نہیں ہوسکتی؟ کبھی تم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ یہ کس کی پیدائش ہے، جس کی یاد کے لیے تم سر و سامانِ جشن کرتے ہو؟ یہ کون تھا، جس کی ولادت کے تذکرے میں تمھارے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا ایسا عزیز پیغام ہے؟ آہ! اگر اس مہینے کی آمد تمھارے لیے جشن و مسرت کا پیام ہے، کیوںکہ اسی مہینے میں وہ آیا، جس نے تم کو سب کچھ دیا تھا تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں ماتم نہیں۔ کیوںکہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا، وہ سب کچھ ہم نے کھو دیا۔ اس لیے اگر یہ ماہ ایک طرف بخشنے والے کی یاد تازہ کرتا ہے تو دوسری طرف کھونے والوں کے زخم کو بھی تازہ ہوجانا چاہیے۔ 
تم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہو، مگر تمھیں اپنے دل کی اُجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو، مگر اپنے دل کی اندھیاری کو دور کرنے کے لیے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے؟ تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو، مگر آہ! تمھارے اعمالِ حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے۔ تم گلاب کے چھینٹوں سے اپنے رومال و آستین کو معطر کرنا چاہتے ہو، مگر آہ! تمھاری غفلت کہ تمھاری عصمت ِاسلامی کی عطر بیزی سے دنیا کی مشامِ روح یکسر محروم ہے! کاش تمھاری مجلسیں تاریک ہوتیں، تمھارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زینت کا ایک ذرّہ نصیب نہ ہوتا، تمھاری آنکھیں رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں، تمھاری زبانوں سے ماہِ ربیع الاوّل کی ولادت کے لیے دنیا کچھ نہ سنتی، مگر تمھاری روح کی آبادی معمور ہوتی، تمھارے دل کی بستی نہ اُجڑتی، تمھارا طالع خفتہ (چھپا ہوا نصیبہ) بیدار ہوتا اور تمھاری زبانوں سے نہیں، مگر تمھارے اعمال کے اندر سے اسوۂ حسنہ نبوؐی کی مدح و ثنا کے ترانے اُٹھتے۔

حوالہ: ماہنامہ مجلہ رحیمیہ لاہور ، جنوری 2015ء
 

متعلقہ مضامین

سوسائٹی کی تشکیل کے لیے اُسوۂ حسنہ کی اہمیت

سیرۃ النبی ﷺ کی اہمیت مسلمان جماعت کے لیے نبی اکرمؐ کی سیرت اور آپ کی زندگی اُسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم الشان شخصیت ہیں…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 15, 2021

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت

عن انس رضی اللہ عنہ، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین۔ (رواہ البخاری) ترجمہ: ’’حضرت انس ب…

ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن اکتوبر 17, 2021

علامہ ابنِ خلدوؒن کا نظریۂ نبوت

انسانی تاریخ میں معاشروں کو تبدیل کرنے والا سب سے مؤثر عامل‘ جس نے اقوام و ممالک کی جغرافیائی اور نسلی عصبیتوں کو ختم کر کے نوعِ انسانی کے ایک ہی اعصابی نظام میں ڈھ…

مفتی محمد اشرف عاطف جون 16, 2023