گزشتہ مہینے کے آخری عشرے سے پاکستانی قوم پر ایک خوف اور دہشت مسلط کردی گئی ہے، جس نے آہستہ آہستہ ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ابھی قوم دہشت گردی، بم بلاسٹنگ اور خودکش حملوں سے جاں بر نہ ہوئی تھی کہ ایک نئی مصیبت نے قوم کو دبوچ لیا ہے۔اس وائرس کی گونج چین، اٹلی، یورپ اور امریکا سے ہوتی ہوئی ایران کے تفتان بارڈر سے ہمارے وطنِ عزیز میں بھی سنی جانے لگی۔ لوگ اس کا شکار ہوتے رہے۔ دھیرے دھیرے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ پہلے صوبائی حکومتوں اور پھر مرکز نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ گھروں میں آئسولیٹ یعنی تنہا ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس خوف وہراس کی فضا میں کئی ایک بیانیے گردش کررہے ہیں۔ لوگ خوف زدہ ہیں۔ جو کوئی جیسا مفروضہ اور احتیاط بتاتا ہے، وہ اسے اختیار کرلیتے ہیں۔ گویا ان کی یہ حالت حسبِ ذیل ہے ؎
برائے نام ہی سہی بہ احتیاط کیجیے
درون کذب و افترا ، صداقتیں خلط ملط
اس حوالے سے قومی و بین الاقوامی سطح پر حکومتوں کا بیانیہ ایک ہے، جس کی صدا ہم سب اپنے میڈیا پر ملاحظہ کررہے ہیں۔ میڈیا نے اس معاملے میں خاصا خوف و ہراس پیدا کیا ہے، جس کے متعدد اسباب ہیں۔ ایک ایسا مرض جو جان لیوا نہیں، بلکہ اس سے شفایاب ہونے کی تعداد کئی ایک مہلک امراض سے کہیں زیادہ ہے، لیکن اسے ایک خوف کی علامت کے طورپر متعارف کروانا پسِ پردہ کئی ایک محرکات کو بے نقاب کرتا ہے۔ بعض ملکوں کے وزرا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم عالمی ادارۂ صحت (W.H.O)کی ہدایات کے پابند ہیں اور موجودہ کرونا وائرس کے مقابلے کے لیے ہم اسی ادارے کی بنائی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ W.H.O کا ڈھانچہ امریکا کے نظامِ صحت پر قائم ہے۔ آج دنیا بھرکے ممالک میں جہاں جہاں بھی اس وائرس کے بارے میں میڈیا پر آگہی دی جارہی ہے، وہ صرف W.H.O کے نظامِ صحت کے حوالے سے ہی ہے۔ کسی دوسرے متبادل طریقۂ علاج کی رائے نہیں لی جارہی، بلکہ بعض جگہوں پر تو متبادل طریقۂ علاج کی کوشش کو غیر قانونی اقدام سمجھ کر اُن کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔ جب کہ دوسری طرف یہ حقیقت اور اطلاعات بھی پیش نظر رہنی چاہئیں کہ یہ وائرس جس سے خلقِ خدا کو ایک آزمائش اور فتنے میں ڈال دیا گیا ہے، قدرتی نہیں، بلکہ مصنوعی ہے اور اسے خاص مقاصد کے لیے لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ جیسے جیسے حالات آگے بڑھ رہے ہیں، سائنسی ماہرین کی طرف سے اصل حقائق اور اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں، اور عالمی اداروں کی طرف سے اس وائرس سے متعلق دی گئی معلومات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو یقینا تشویش ناک ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے مغربی استعمار چھپا بیٹھا ہے اور یہ منطق کہ یہ وائرس خود سرمایہ دار ملکوں میں بھی پھیل رہا ہے تو سرمایہ داری کی تاریخ سے واقف اس کی سفاکیت سے آگاہ ہیں کہ اس نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے معصوم انسانوں کا ناحق خون بہایا ہے۔
اب اس سوال کا جواب تلاشنا اہم ہے کہ سرمایہ داری نظام آخر ایسا کیوں کرنا چاہ رہا ہے؟ اس کا جواب امپیریلزم کی حقیقت کو سمجھنے کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ استعماری قوتوں نے ہمیشہ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے اور دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نت نئے حربے اور طریقے ایجاد کیے ہیں۔ تاریخِ انسانی کی بیشتر جنگیں اسی استعماری جذبے کا شاخسانہ ہیں۔ ماضی قریب کی جنگوں نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح ان قوتوں نے ملکوں کے درمیان جنگیں کرواکے انھیں کمزور کرنے کے بعد اپنے آپ کو طاقت کا محور منوایا ہے۔ گزشتہ ادوار میں جنگوں میں فتح عددی اکثریت اور اسلحے کے زور پر حاصل کی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں سب سے بڑی تجارت بھی ہتھیاروں کی ہی رہی ہے۔ اب ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی عام ہوچکی ہے۔ بہت سے ملک اپنے دفاع کا ساز وسامان خود بنانے لگے ہیں، حتیٰ کہ بہت سے ملک ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ کئی ایک تو اعلانیہ ایٹم بم بھی بناچکے ہیں۔ لہٰذا اب استعمار‘ دنیا کو کنٹرول کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ مثلاً مصنوعی طریقوں سے موسموں پر کنٹرول حاصل کرنا اور ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے سے سونامی، طوفان، زلزلوں اور سیلابوں سے انسانی آبادیوں کو تہہ وبالا کرنا‘ اس کے جدید طریقہ ہائے جنگ ہیں، جس کی ہمیں چند سال پہلے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔
اب یہ استعماری نظام دنیا کو بائیولوجیکل وار کی طرف لے کر جارہا ہے، جس میں بیماریوں اور وائرسز کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کرنے اور اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا عالمی پروگرام تشکیل دیا جارہا ہے۔ اب اسلحے کی فروخت سے زیادہ میڈیسن اور میڈیکل کِٹس فروخت کرکے اپنے معاشی اہداف کو حاصل کیا جائے گا۔ اسی لیے آج دنیا میں ادویات سازی اور اس کی فروخت دنیا کا سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ اس لاک ڈاؤن میں ملکوں کی معیشت تباہی کے دھانے کی طرف بڑھ رہی ہے، جسے بعد ازاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے ذریعے بحال کرنے کے لیے اس عمل کا جواز تراشا جائے گا۔
آج خوف سے دھندلائی اس فضا میں حقیقی صورتِ حال کو سمجھنا اور اس پر رہنمائی دینا باشعور حلقوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہ حالات ایسی قیادت کی موجودگی وقت کا تقاضا ثابت کررہے ہیں۔ اسی لیے ولی اللّٰہی فکر سے وابستہ نوجوانوں کو ان کے قائدین کی طرف سے عوامی خدمت کے لیے جہاں اس وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عوام میں اس کی آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے، وہیں استعماری قوتوں کی طرف سے انسانیت پر اس بائیولوجیکل وار مسلط کرنے کا شعور بھی اُجاگر کیا جارہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو احتیاط کے نام پر سماجی تنہائی کا شکار ہونے کے بجائے آگے بڑھ کر اس مصیبت میں گھرے انسانوں کی مالی اور طبی مدد کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی بحالی کا کام بھی کرنا ہے۔ انھیں خوف سے نکال کر دُکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشارکرنا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فتنے اور مصیبت سے قوم اور انسانیت کو نجات اور فتح نصیب فرمائے۔(آمین!) (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔