امریکی ناول نگار ڈیان رے کوون ٹز (Dean Ray Koontz) نے اپنے ایک ناول "The Eyes of Darkness" (دی آئیز آف ڈارکنیس) یعنی ’تاریکی کی آنکھیں‘ میں کورونا وائرس کا ذکر کیا تھا۔ جس میں ایک فرضی نام کے چینی سائنس دان کے بارے میں لکھا کہ وہ کیسے ’ووہان 400‘ نامی کیمیاوی وائرس تیارکرکے چین سے فرار ہوکر امریکا آیا تھا۔ یہ وائرس ووہان نامی شہر کے نزدیک ایک لیبارٹری میں تیارکیا گیا۔ 1981ء کے ایڈیشن میں وائرس کا نام ایک روسی شہر (GORKI.400) کے نام پر رکھا گیا تھا۔ 1989ء میں جب ناول کا دوسرا ایڈیشن آیا تو اس کا نام تبدیل کرکے ’ووہان 400‘ (WUHAN400) رکھ دیا گیا۔ ایک اور امریکی ناول نگا رسیلو یا برائون (Sylvia Browne) نے اپنے ناول "End of Days" (اینڈ آف ڈیز) یعنی ’’وقت کا اختتام‘‘ جو 2008ء میں شائع ہوا تھا، میںروشنی ڈالی کہ 2020ء میں کورونا نامی وبا دنیا میں پھیل جائے گی اور اس کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوگا۔ گویا پہلا ہدف روس تھا، حالات کے تبدیل ہونے سے ہدف بھی تبدیل ہوگیا۔
اسی طرح 2011ء میں اسی موضوع پربننے والی فلم کینٹاجن (CANTAGION) یعنی ’’چھوت کی بیماری‘‘ میں وائرس کی تباہ کاریوں کا بالکل وہی منظر پیش کیا گیا تھا، جو اس وقت دنیا میں نظر آرہا ہے۔ امریکی مصنفہ سیلویا برائون جس کا 2013ء میں انتقال ہوا، وہ اپنے آپ کو روحانی عامل کہتی تھی۔ ٹی وی چینلز میں روحوںکو بلاتی تھی۔ اس نے اپنے ناول میں لکھا ہے کہ 2020ء میں ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہاتھوں میں دستانے اور چہرے میں ماسک چڑھائے ہوئے ہوں گے۔ دنیا اس وقت نمونیا سے ملتی جلتی ایک بیماری میں مبتلا ہوگی، جو پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں پر اثرانداز ہوگی۔ یہ بیماری سردیوں کو بہت زیادہ مشکل اور خطرناک بنادے گی۔ پھر اچانک غائب ہو جائے گی۔ 10 سال کے بعد دوبارہ نمودار ہوگی۔ ایک مہینہ رہے گی۔ پھر ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائے گی۔ مصنفہ کو عوام میں ایک سچی اور نیک عامل کے طور پر متعارف کروایا گیا کہ وہ روحانی قوتوں کی نمائندہ ہے، جو مستقبل میں جھانک کر پیش آنے والے واقعات کے بارے میں آگہی دے سکتی ہے وغیرہ۔
سائنسی ترقیات سے قبل یورپ میں جادو کا غلبہ ہوتا تھا۔ عوامی ذہن کو قابو میں رکھنے کے لیے جادو ٹونہ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ مغرب کی بالا دستی کے دور میں سائنسی ایجادات کا ظہور عمل میں آیا تھا، جو اس جادوئی دماغ کے خلاف بہت بڑی بغاوت تھی۔ وہاں کے بالادست طبقے نے وباؤں اور قدرتی آفات کی تباہ کاریاں دیکھ کر انھیں مرعوب رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ اسی موضوع پر کتابیں لکھائی جاتی تھیں۔ آفات و بلیات پر قابو پانے کے لیے سائنس کے کرشمے دکھائے گئے۔ یورپ میںپوپ کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے تمثیل کو ہی ذریعہ بنایا جاتا تھا۔ اسی عہد میں سینما ایجاد ہوگیا۔ کتب کی اشاعت اور فلموں کو فروغ دے کر عوامی سوچ کو تابع رکھنے کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا۔
ایشیائی وسائل پرقبضہ جمانے کے لیے 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے نے نہ صرف نوجوان نسل کا قتلِ عام کیا، بلکہ علاقے کے قدرتی وسائل پر بھی ہاتھ صاف کرلیے۔ مشرقِ وسطیٰ کی مزاحمتی قوتوں کو اندوہ ناک طریقے سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جمال عبدالناصر، شاہ فیصل، بھٹو، اندرا گاندھی، یاسر عرفات، صدام حسین اور قذافی جیسی لیڈر شپ کہ جن سے امکانی طور پر خطرہ ہوسکتا تھا، کے خلاف سفاکانہ کردار ادا کیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں آخری ہدف حافظ الاسد کا نمائندہ بشارالاسد ہے۔ اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے داعش کا جال بچھایا گیا، لیکن روسی ساخت کے دفاعی نظام S-300 کی شام میں تنصیب سے امریکی منصوبہ دھرے کادھرا رہ گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں سابقہ امریکی صدور پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے چین کے ساتھ خسارے کی تجارت کرکے امریکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 2018ء کے دوران امریکا چین تجارتی مذاکرات کے جولائی، اگست، ستمبر تک تین دور ہوئے۔ جب کہ 2019ء میں مئی اور جون کے دوران پھر مزید دو اجلاس ہوئے، لیکن تمام مذاکرات امریکی تجارتی خسارہ کم کرنے میں زیادہ مفید ثابت نہ ہوسکے۔ امریکا تصورِ مذاکرات سے عاری ہے۔ کسی مد ِمقابل قوت کے سامنے دلائل کی بنیاد پر اپنا دعویٰ پیش کرنے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ کیوںکہ مذاکرات ہمیشہ ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول کے تحت ہوتے ہیں، جب کہ اس سے پہلے توامریکا ہمیشہ اپنا ہی مؤقف منواتا چلا آرہا تھا۔ امریکی معیشت کو خسارے سے نکالنے میں ناکامی‘ ٹرمپ کے لیے ناقابلِ براشت تھی۔ اقدامی جنگ میں تو وہ پہلے ہی S-300 دفاعی نظام سے ذلت آمیز شکست کھا چکا تھا۔ مذاکر ات کی میز پر تجارتی جنگ ہارنے کے بعد آخری آپشن صرف بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال تھا۔ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا تاج آج بھی امریکا اپنے سر پر فخر سے سجائے ہوئے ہے۔ انسانیت کی تباہی کے لیے پہلے بھی جدید ہتھیاروں کا استعمال امریکا نے ہی ایشیا میں کیا تھا۔ آج بھی کیمیاوی وائرس کے استعمال کے لیے ایشیا کو ہی چنا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا خود لپیٹ میں آنا ہے، یہ مسئلہ تو اُن کا ہے، جن کے ہاں انسانیت کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردینا جو انبیا ئے بنی اسرائیل کی مقدس سرزمین ہے اور اس قتل و غارت کے دوران بہنے والا انسانی خون ابھی منجمد نہیں ہوا، جو اس کے عملی کردار کا شاخسانہ ہے۔
سرمایہ داری نظام اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہاہے۔ آج کا عالمی لاک ڈائون اس عمل کو سست کرنے کی احمقانہ، عارضی اور طفلانہ سعی ہے۔ اصل ہدف چین تھا۔ سرمایہ دار دنیا کے وہ ممالک، جو کرونا وائرس حملے کے باعث وینٹی لیٹر پر منتقل ہوچکے ہیں، چین انھیں نہ صرف ما سک منتقل کررہا ہے، بلکہ وینٹی لیٹر بھی فراہم کرکے اقتصادی میدان میں بھر پور قوت و طاقت کے ساتھ اپنے سفر کو بحال کرچکا ہے۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔