حُجّةُ اللّٰه البالِغة (قسمِ ثانی): 101 /ابوابِ ایمان (آخری حصہ)../ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

تفصیل

احادیثِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں دینِ اسلام کے مربوط فلسفہ ’’علمِ اَسرار الدین‘‘ پر مبنی مجددِ ملت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مایۂ ناز تصنیف حُجّةُ اللّٰه البالِغة کے ہفتہ وار دروس

درس : 101

قسمِ ثانی: احادیثِ رسولؐ پر مشتمل ملتِ اسلامیہ کا مربوط نظام و فلسفہ اور عقلی منهج کی تفصيلات

ابوابِ ایمان (آخری حصہ)
ایمانیات سے متعلق بقیہ احادیث کی تشریح
(فطرت کی حقیقت، بندوں کو اپنے افعال میں اختیار اور سزا و جزا، تمام مخلوقات کی تقدیر اور جنت و دوزخ)

مُدرِّس:
حضرت مولانا شاہ مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری

بتاریخ: 24 ؍ جون 2020 ء

بمقام: ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور

*۔ ۔ ۔ ۔ درس کے چند بُنیادی نِکات ۔ ۔ ۔ ۔ *
👇
0:00 آغاز درس
0:26 حدیث 11: كل مَوْلُود يُولد على الْفطْرَة الخ (الحدیث)کی تفصیل و تشریح
20:45 تمام مخلوقات کی مخصوص شکل و صورت، علم و ادراک کی خاص صلاحیت ، اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت اور معرفتِ باری تعالی کے لیے انسان کی امتیازی خصوصیت
27:27 حدیث کا محمل و مقصد اور دائرہ کار: فطری علم (خدا پرستی و انسان دوستی) کے راستے کے عوارض (والدین اور ماحول وغیرہ) کی وجہ سے معرفتِ خداوندی سے محرومی
21:29 حدیث 12: ۱۔ خلقهمْ لَهَا وهم فِي أصلاب آبَائِهِم ۲۔ هم من آبَائِهِم ۳۔ الله أعلم بِمَا كَانُوا عاملين ۴۔ نسم ذُرِّيَّة بني آدم الخ (الحدیث) چاروں احادیث کی تفصیلات
27:27 پہلی حدیث کی وضاحت: ہر بچہ سلیم الفطرت پیدا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار پیدائشی طور پر خرابی کی وجہ سے لعنت کا مستحق
31:41 دوسری حدیث کی وضاحت: اس کا تعلق احکامِ دنیا کے ساتھ ہے، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
32:49 تیسری اور چوتھی حدیث کی روشنی میں حضور ﷺ کا توقف اختیار کرنے کا صحیح مطلب
35:18 حدیث 13: بِيَدِهِ الْمِيزَان أَن يخْفض وَيرْفَع الخ (الحدیث) کی تشریح: کائنات کے نظام میں مصلحتِ کلیہ کے مطابق اللہ کا عادلانہ فیصلہ قرآنی اصطلاح کے مطابق "شان" اور حدیث کی رو سے "میزان" ہے۔
38:15 حدیث 14: ۱۔ إِن قُلُوب بني آدم كلهَا بَين أصبعين من من أَصَابِع الرَّحْمَن ۲۔ مثل الْقلب كريشة بِأَرْض فلاة الخ (الحدیث) کی تفصیل: بندوں کے تمام افعال اختیاری لیکن اس اختیار میں انہیں کوئی اختیار نہیں، مثال سے وضاحت
45:59 انسان کے افعال اللہ کےاختیار میں ہونے کے باوجود سزا و جزا کی پانی کی مثال سے توضیح
47:44 مذکورہ حدیث کا تعلق سسٹم پیدا کرنے کے تناظر میں ہے، نہ کہ انسان کو مجبورِ محض بنانے
49:06 انسان میں اختیار کی صلاحیت بالعرض ہے نہ کہ بالذات: صحابہؓ و تابعینؒ کے کلام سے مستنبط شاہ صاحبؒ کی عمدہ تحقیق
49:42 (اہم بات) جن افعال و اعمال میں انسان کا اپنا اختیار نہیں ہوتا، نفسِ ناطقہ ان کا کوئی رنگ اور اثر قبول نہیں کرتا، سز ا و جزا ان اعمال پر ہے جو انسان کے اپنے فعل و اختیار سے سرزد ہوں
57:10 حدیث 15: إِن الله خلق خلقه فِي ظلمَة الخ (الحدیث) کا معنی و مفہوم: مخلوق کی تقدیرِ ازلی اور معاہدہ اَلست کا ذکر
1:01:08 حدیث 16: إِذا قضى الله لعبد أَن يَمُوت بِأَرْض جعل لَهُ إِلَيْهَا حَاجَة الخ (الحدیث) کی تشریح: بعض حوادث و واقعات، سبب و مُسبب کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی و ضروری
1:02:58 حدیث 17: كتب الله مقادير الْخَلَائق الخ (الحدیث) میں مخلوقات کی تقدیر اور پانی پر اللہ کے عرش کا ذکر: عرش و پانی
1:13:46 اول المبدعات، عرش کی حقیقت اور اس کی تعبیرات، لوحِ محفوظ و قلم کی ماہیت اور من گھڑت اسرائیلی روایات، نیز کتابت کے معنی لزوم و تعیین کے ہیں۔
1:14:22 عرش کی قوتوں میں سے ایک قوت کائنات کےہر ہر مرحلے کے دائرہ کار کا تعین کرتی ہے، پانی پر وہ نقش و نگار بنتے اور متعین ہوتے ہیں۔
1:15:02 حدیث 18: إِن الله خلق آدم، ثمَّ مسح ظَهره بِيَمِينِهِ الخ (الحدیث)کی تفصیل:حضرت آدمؑ ابو البشر، کل انسانیت کے حقائق کا وجود، آدمؑ کا اپنی مثالی صورت سے سعادت و نیک بخت جنتی اور شقاوت و بد بخت جہنمیوں کا مشاہدہ اور جبلی استعداد کی وجہ سے مواخذہ
1:20:58 حدیث 19:إِن خلق أحدكُم يجمع فِي بطن أمه الخ (الحدیث) میں انسان کی تخلیق اور نشو ارتقا کے تدریجی مراحل اور اس کی جبلی ساخت سے امور کا تعین، کجھور کی مثال سے وضاحت
1:26:33 حدیث 20: مَا مِنْكُم من أحد إِلَّا وَقد كتب لَهُ مَقْعَده من النَّار الخ (الحدیث) میں دوزخ اور جنت کے ٹھکانے کی تقدیر: نفوسِ انسانی میں کمال و نقصان کے اعتبار سے عذاب و ثواب مقرر ہو چکا ہے۔
1:29:46 21. آیتِ قرآنی وَإِذا أَخذ رَبك من بني آدم (الْآيَة ) حدیث 18 کے خلاف نہیں ہے، قرآن میں واقعے کا ایک پہلو اور حدیث میں اس کی تفصیلات ہیں۔
1:32:33 22. آیت: فَأَما من أعْطى وَاتَّقَى وَصدق بِالْحُسْنَى(الْآيَة )اور حدیث 20 میں تطبیق
1:33:31 23. آیت: وَنَفس وَمَا سواهَا فألهمها فجورها وتقواها(الْآيَة ) میں اِلہام سے مراد روح میں فجور (قانون شکنی) اور تقویٰ (قانون پر عمل درآمد) کی صورت کا پیدا کرنا اور اِلہام دراصل صورتِ علمیہ کا نام ہے۔

پیش کردہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ، لاہور ۔ پاکستان
https://www.rahimia.org/
https://web.facebook.com/rahimiainstitute/

پلے لسٹس
حُجّةُ اللّٰه البالِغة
وقت اندراج
دسمبر 27, 2023