پاکستانی نظام کا قانون کے نام پر کھلواڑ

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
ستمبر 14, 2023 - شذرات
پاکستانی نظام کا قانون کے نام پر کھلواڑ

جب ہم کسی ملک یا معاشرے کے ترقی یافتہ ہونے یا زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک اہم ترین پیمانہ؛ معاشرے میں ایسے قانون کی حکمرانی کا ہے، جس کے ذریعے سے اس معاشرے میں موجود تمام افراد کے لیے آزادیٔ رائے، عدل، امن، معاشی خوش حالی کا آئینی اور قانونی حق حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ ایسے قانون کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا‘ یا قانون کو موم کی ناک بنانے کا رویہ ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی یعنی رُول آف لاء(Rule of Law)پر عمل کو مہذب معاشروں کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سے وفاداری معاشرے کے ہر ایک فرد کو اس بات کی ضمانت فراہم کرتی ہے کہ اس معاشرے میں آزادی اور مساوات کے مواقع سب کے لیے یکساں ہیں۔ ایسے معاشروں میں عدل کے منصفانہ نظام کے ذریعے پُر اَمن طریقے سے سیاسی اختلافِ رائے کو حل کرلیا جاتا ہے۔ وہاں کا عدالتی نظام‘ عدل کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں قوانین کی تشریح‘ قانون کی روح کے مطابق کرتا ہے۔ قانون کی حکمرانی وہ بنیادی قانونی اصول ہے، جو ملک میں موجود تمام افراد، برادریوں، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لیے مساوات اور جواب دہی کا تصور فراہم کرتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے تحت قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ قانون پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سب افراد، ادارے اور جماعتیں قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ ایک منصفانہ نظامِ حکومت میں کوئی ایک شخص، ادارہ، جماعت یا خود حکومت دوسرے سے زیادہ اہم یا قانون سے بالاتر نہیں ہوتی۔

آج دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں، جہاں آئین، دستور اور قانون تو موجود ہیں، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہے، وہ مقتدر اور طاقت ور طبقوں کے ہاتھ میں موم کی ناک ہیں۔ انھیں وہ جب جس طرف چاہتے ہیں، موڑ دیتے ہیں۔ ان ملکوں کے قوانین طاقت ور کے سامنے مکڑی کا وہ جالا ہیں، جنھیں وہ جب چاہیں‘ توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان بھی اسی قبیل کے ملکوں میں شامل رہا ہے۔

ویسے تو پاکستان کی پوری تاریخ ہی آئین، دستور اور قانون سے مذاق اور کھلواڑ کی بدترین مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن گزشتہ سال سن 2022ء میں رجیم چینج آپریشن کے نتیجے میں آنے والی حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں اس شیشے کے گھر پر جو سنگ باری ہوئی ہے، اس نے قانون کی بے توقیری کی سب حدیں پار کردی ہیں۔

اس حکومت کی پہلی بے اصولی تو اس ایوان کے حوالے سے تھی، جو حکومت کو قانون سازی کے لیے ایوان کے میرٹ کا تقاضا کرتا ہے، لیکن یہاں تو کوئی حقیقی اپوزیشن ہی نہیں تھی۔ اپوزیشن پارٹی ایوان سے باہر تھی اور منحرف ارکان کو جہاں حکومت گرانے کے لیے استعمال کیا گیا، اسی کو اپوزیشن تسلیم کرکے ایک مصنوعی پارلیمانی عمل کے ذریعے انھیں اپوزیشن کا کردار سونپ دیا گیا۔ نام نہاد ’تحریکِ عدم اعتماد‘ کے نتیجے میں جس پارٹی پر اپوزیشن کی ذمہ داری عائد ہوئی، اس نے اپنے غلط تخمینوں کے ذریعے بھان متی کی حکومت کو واک اووَر دے کر اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے بھی انحراف کیا۔

پھر اس بھان متی حکومت نے وہ وہ کام کیے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک بدترین اضافہ ہیں۔ مثلاً پہلے تو اس حکومت نے نیب اور ایف آئی اے میں اپنے سمیت پورے حکومتی اتحاد پرقائم اربوں روپے کے کیسز ختم کروائے۔ پھر متعدد ترا میم کے ذریعے نیب اور ایف آئی اے کے دانت نکال کر اپنی مرضی کے افسران بھرتی کرکے ان اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایسے ہی دیگر متعدد اداروں کے قوانین میں ترامیم کرکے ان کے کردار کو اپنے سیاسی مقاصد میں سہولت کار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔

ہم انھی صفحات پر سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سیاسی پالیسیوں اور حکومتی کارکردگی پر سخت ناقد رہے ہیں، لیکن کسی سیاسی مخالف کو قوانین کی من پسند تشریح یا ترامیم کے سہارے دیوار سے لگانے کے عمل کی ہرگز حمایت نہیں کی جاسکتی۔ پی ڈی ایم حکومت نے جس طرح میڈیا کو لالچ اور اشتہارات، الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے میں ٹال مٹول، پارلیمنٹ میں قانون سازی، سپریم کورٹ کے ساتھ محاذ آرائی اور قوانین میں ترامیم کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا، وہ کسی بھی طرح آج کے جمہوری دور میں قابلِ ستائش نہیں۔ اس کا نقصان یہ ہو ا ہے کہ لوگ اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہوکر اپنی دھرتی کو خیرباد کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

اس حکومت نے سپریم کورٹ سے ’’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء‘‘ کے نام پر قانون سازی کے ذریعے اس وقت محاذ آرائی شروع کردی‘ جب سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں تاخیر پر الیکشن کمیشن آف پاکستان(ECP)کے خلاف سوموٹو نوٹس لیا، لیکن حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے الیکشن سے راہِ فرار اختیار کرکے عدلیہ کے احترام کے بھاشن دینے والے سیاست دانوں نے عدلیہ کے وقار کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ ڈالی۔ یوں چیف جسٹس کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ دوسری طرف ایک سیشن جج سابق وزیراعظم کے خلاف توشہ خانہ کیس میں عدالتی پروسیجر کو روندتے ہوئے ایک فیصلہ سناتے ہیں تو اس کے فیصلے پر اگلے پانچ منٹ میں عمل در آمد شروع ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس کا فیصلہ کوئی پوچھتا نہیں اور ایک سیشن جج کے فیصلے پر سابق وزیراعظم جیل پہنچادیا جاتا ہے۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے شاعر نے کہا تھا    ؎

خرد کا نام جنوں پڑ گیا ، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہ وہ اپروچ ہے جس کے ذریعے قانون کو انصاف کے لیے نہیں، بلکہ اپنے عزائم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لولی لنگڑی پارلیمنٹ نے جاتے جاتے جتنے قوانین کے بل پاس کیے ہیں، وہ بھی قانون کی اجتماعی روح سے خالی ہیں۔ پھر اسپیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے ترمیمی بلوں پر صدرِ پاکستان کے دستخطوں کے قضیے نے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا سامان کردیا ہے۔           (مدیر)

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: &…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020