چینی صدر کا دورۂ رُوس(2)

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
جولائی 12, 2023 - عالمی
چینی صدر کا دورۂ رُوس(2)

20، 21 اور 22؍ مارچ کو چینی صدر شی جن پنگ کے دورۂ روس کے بارہ نکاتی ایجنڈے (نکات 8 تا 12) کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

8۔ اسٹریٹجک خطرات کو کم کرنا: جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہونا چاہیے اور جوہری جنگیں نہیں لڑنی چاہئیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ ایٹمی پھیلاؤ کو روکنا ہوگا اور ایٹمی بحران سے گریز کرنا ہوگا۔ چین کسی بھی ملک کی طرف سے کسی بھی حالت میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق، ترقی اور استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔

9۔ اَناج کی برآمدات کو آسان بنانا: تمام فریقین کو روس، ترکی، یوکرین اور اقوامِ متحدہ کے دستخط شدہ بحیرۂ اسود کے اناج کے اقدام کو مکمل طور پر اور مؤثر طریقے سے متوازن انداز میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے میں اقوامِ متحدہ کی حمایت کرنی چاہیے۔ چین کی طرف سے تجویز کردہ عالمی غذائی تحفظ پر تعاون کا اقدام عالمی غذائی بحران کا ایک قابلِ عمل حل فراہم کرتا ہے۔

10۔ یک طرفہ پابندیوں کو روکنا: یک طرفہ پابندیاں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ وہ صرف نئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ چین اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے غیر مجاز یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ متعلقہ ممالک کو دوسرے ممالک کے خلاف یک طرفہ پابندیوں اور ’’طویل بازو کے دائرۂ اختیار‘‘ کا غلط استعمال بند کرنا چاہیے، تاکہ یوکرین کے بحران کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالا جا سکے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جا سکیں کہ وہ اپنی معیشتوں کو ترقی دے سکیں اور اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔

11۔ صنعتی اور سپلائی چَین کو مستحکم رکھنا: تمام فریقوں کو دل جمعی سے موجودہ عالمی اقتصادی نظام کو برقرار رکھنا چاہیے اور عالمی معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ بحران کے پھیلاؤ کو کم کرنے اور اسے توانائی، مالیات، خوراک کی تجارت اور نقل و حمل میں بین الاقوامی تعاون میں خلل ڈالنے اور عالمی اقتصادی بحالی کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

12۔ تنازعات کے بعد کی تعمیرِنو کو فروغ دینا: بین الاقوامی برادری کو تنازعات والے علاقوں میں تنازعات کے بعد تعمیرِ نو کی حمایت کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چین اس کوشش میں مدد فراہم کرنے اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی صدر نے دورۂ یوکرین جنگ کے دوران روسی اقداما ت پر تنقید کرنے کے بجائے انھیں مکمل تعاون اوروسائل کی فراہمی یقینی بنانے پر زور دیا۔ جنگ کے ماحول میں یہ دورہ ایک اَخلاقی سپورٹ فراہم کرتاہے۔

ان نکات کا جائزہ لینے سے درج ذیل پہلو سامنے آتے ہیں؛ مغربی اقوام کے اقدامات؛ پیدا شدہ مسائل اور مستقبل کی پیش بندی۔ چین نے محسوس کیا کہ جنگ کی وجہ سے یورپ کی حالت خاصی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ انھیں اور ان کے اتحادیوں کومدد کی ضرورت ہوگی، جس کا چند ایک ممالک کی طرف سے عندیہ ظاہر ہوا تھا۔ مغربی اقوام کے اقدامات؛ خود مختاری کا خاتمہ، سرد جنگ کی ذہنیت، دشمنی کا خاتمہ، اور یک طرفہ پابندیوں کا خاتمہ۔ نکات میں تمام عالمی اور علاقائی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثلاً خود مختاری کی بات کو لیں تو یورپ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں جس بے دریغ طریقے سے چھوٹے چھوٹے ممالک کی خو د مختاری کو تباہ و برباد کرکے ان کے وسائل کو جس بے باکی، ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے لوٹا ہے۔ ان تما م جر ائم کی ذمہ دار ی بھی مغربی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ ا س سارے عمل میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ سرد جنگ کی ذہنیت کا تعلق بھی یورپی جتھے کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعدجب مغرب معاشی مسائل کے شکنجے میں جکڑا گیا تو انھوں نے دنیا میں جنگ کا ماحول پید اکیا۔ چھوٹے چھوٹے ممالک کو باہم لڑوانے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔ ٹکرانے والے ممالک کو اسلحہ فراہم کیا گیا۔ مغربی طاقتوں کے اسلحہ ساز کارخانوں کو کاروبار ملنا شروع ہوگیا، جس سے معاشی بحران تھمنا شروع ہوگیا۔ عالمی سطح پر دشمنی کی ذہنیت کو پھیلانے والا بھی مغرب ہی تھا۔ کیوں کہ سوویت یونین کے تحلیل ہو نے کے بعد نیٹو کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔ جہاں تک اقتصادی پابندیوں کے اطلاق کی بات ہے، اس کی ذمہ داری بھی یورپی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے دنیا میں چودھراہٹ اور پتھر کے عہد کے احیا کی طرف لوٹنا شروع کردیا۔

 مغرب کے پیدا شدہ مسائل؛انسانی بحران، جنگی قیدیوں کا تحفظ۔ مستقبل کی پیش بندی؛امن مذاکرات کا احیا، اناج کی ترسیل کا یقینی بنانا، جوہری پاور پلانٹس کی حفاظت، اسٹریٹجک خطرات کو کم کرنا، عالمی اقتصادی نظام کا تحفظ، تنازعات کے بعد تعمیرنو۔

بادی النظر میں تمام نکات مغربی طاقتوں کے اقدمات سے متعلق ہیں، اس لیے وہی اس کے ذمہ دار ہیں، انھیں ہی اس پر عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ آج دنیا میں طاقت کا توازن قائم ہونے جارہا ہے۔ جس سے امن کی طرف پیش رفت ہوگی۔ دنیا میں قتل و غارت اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا، جس کی وجہ سے نسل انسانی کو پناہ گاہیں ڈھونڈ نے میں نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس سے انسانی بحران پید ا ہوگیا۔ قوموں پر جنگیں مسلط کرنے سے جنگی قیدیوںکا مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ جنگ ختم ہوجانے سے جنگی قیدیوں کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوگا۔ اناج انسانی بقا کا ضامن ہے، اس کی ترسیل کو یقینی بنانا بھی اقوام کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ دوسری اقوام پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے انھیں غلام بنانے کی سازش ہے، جس کا تدارُک ضروری ہے۔ موجودہ عالمی اقتصادی نظام کا قیام نہ صرف ضروری ہے، بلکہ اس میں بہتری اور صالحیت پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ عصری تقاضا ہے، تاکہ معاشی ثمرات بلا امتیاز نسل انسانی تک پہنچ کر طبقاتیت کا خاتمہ ہوسکے۔

 

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: &…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020